امریکہ میں نومنتخب صدر جوبائیڈن کے عہدے کی باقاعدہ منظوری کے لیے ہونے والے اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ کے حامیوں کے دھاوے اور ہنگامہ آرائی میں انسانی جانیں ضائع ہوئیں، تشدد ہوا اور سیاسی کشیدگی بڑھی تو اس کی گونج سوشل ٹائم لائنز تک پہنچ گئی۔
سوشل پلیٹ فارمز خصوصا ٹوئٹر پر ایک وقت میں کئی ٹرینڈز امریکی دارالحکومت کی صورتحال بتاتے اور اس پر تبصرہ کرتے صارفین کی گفتگو کے لیے خاص رہے۔
مزید پڑھیں
-
صدر ٹرمپ نے ’علی پے‘ سمیت آٹھ چینی ایپس پر پابندی لگا دیNode ID: 530176
-
صدر ٹرمپ کے حامیوں کا کیپیٹل ہل پر دھاوا، چار ہلاک، 52 گرفتارNode ID: 530396
ٹوئٹر ڈیٹا کے مطابق ان درجن بھر ٹرینڈز میں گفتگو کرنے والوں کی تعداد اور ٹویٹس کی مقدار 30 لاکھ سے زائد رہی۔
امریکہ میں مقیم پاکستانیوں میں سے کچھ نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا تو کچھ ایسے بھی تھے جو اس کا موازنہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے سے کرتے رہے۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ سے منسلک پاکستانی فہیم یونس نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ’اس سے بچنے کے لیے پاکستان چھوڑا تھا۔‘
فہیم یونس کے جواب میں ٹویٹ کرنے والوں میں سے کچھ نے واشنگٹن میں ہوئے احتجاج کو 2014 میں اسلام آباد کے ڈی چوک سے تشبیہہ دی کچھ اسے ماضی میں پارلیمنٹ و سپریم کورٹ پر احتجاج کے واقعات سے جوڑتے رہے۔ البتہ کچھ صارفین نے حقائق کو بنیاد بناتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں کبھی مظاہرین اسمبلی کے اندر داخل نہیں ہوئے، بات لان تک ہی رہی تھی۔
اقرا نورین نامی صارف نے بات آگے بڑھائی تو لکھا کہ ’پاکستان میں چار غیرمسلح آرمی افسران نے پارلیمنٹ کے احاطے میں داخل ہونے والے ہجوم کو قابو کر لیا تھا جب کہ واشنگٹن ڈی سی میں آپ ان کو ہینڈل نہیں کر سکے۔‘
گفتگو کا حصہ بننے والے کچھ افراد نے مغربی ملکوں میں موجود تارکین کے رویوں کو موضوع بنایا تو دعوی کیا کہ اس معاملے میں تضاد پایا جاتا ہے۔
عاصم ملک نامی ہینڈل نے لکھا ’حقیقت یہ ہے کہ لوگ مغرب کی جانب بہتر طرز زندگی اور اچھی آمدن کے لیے جاتے ہیں، جمہوریت ان کی منتقلی کے فیصلے کی وجہ نہیں ہوتی۔‘
سوشل میڈیا ٹائم لائنز پر آنے کے بعد کوئی موضوع مخصوص حد تک نہیں رہتا بلکہ پانی کی طرح جس طرف رستہ بنے چلتا ہی چلا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی یہاں بھی ہوا اور ٹرمپ کے حامیوں کے احتجاج اور پاکستان میں موجودہ حکومتی یا اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج سے اس کی مماثلت تک پہنچنے والی گفتگو انڈین جھنڈا کیوں؟ کے سوال تک جا پہنچی۔
Dozens have forced their way to the top. More coming up the steps. Police are trying to bolster their numbers through the west doors but someone with a fire extinguisher is dousing them from above. The crowd only keeps cheering. pic.twitter.com/WA526jTBGo
— Alejandro Alvarez (@aletweetsnews) January 6, 2021