Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن کمیشن میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف فنڈنگ کیسز کیا ہیں؟

ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف مالی ذرائع ظاہر کرنے کے حوالے سے کیسز زیر سماعت ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
الیکشن کمیشن میں جہاں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے خلاف فارن فنڈنگ کیس زیرسماعت ہے اور اپوزیشن اس کے جلد فیصلے کا مطالبہ کر رہی ہے وہیں خود اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف بھی مالی ذرائع ظاہر کرنے کے حوالے سے کیسز زیر سماعت ہیں۔
الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی نے سوموار کو سماعت کے دوران دونوں جماعتوں سے فارن فنڈنگ کی تفصیلات طلب کی ہیں۔ 2014 میں پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اکبر ایس بابر کی طرف سے پارٹی کے ذرائع آمدنی میں بے قاعدگیوں کے خلاف درخواست دائر کی تو اکتوبر 2017 میں پی ٹی آئی کے فرخ حبیب نے بھی مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کے ذرائع آمدن کی تحقیقات کے لیے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کر دی اور استدعا کی کہ دونوں جماعتوں کی سال 2013 سے 2015 تک آمدن کا آڈٹ کیا جائے۔
الیکشن کمیشن نے 2018 میں معاملہ سکروٹنی کمیٹی کے سپرد کر دیا جہاں اس پر متعدد سماعتیں ہو چکی ہیں۔ دونوں جماعتوں کے وکلا کا موقف ہے کہ انہوں نے کوئی غیر ملکی فنڈنگ وصول نہیں کی ہے بلکہ تمام فنڈز مقامی ذرائع سے حاصل کیے گئے ہیں اور تمام ریکارڈ متعلقہ کمیٹی کے سامنے جمع کروا دیا ہے جس کی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

مسلم لیگ نواز کے خلاف کیس کیا ہے؟

الیکشن کمیشن میں زیر سماعت پی ٹی آئی کے پارلیمانی سیکرٹری فرخ حبیب کی دائر کردہ درخواست میں مسلم لیگ ن پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس کے اثاثے تصدیق شدہ نہیں اور اسے ممکنہ طور پر بیرون ملک سے بھی فنڈنگ ہوتی ہے۔
پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ 2013 میں مسلم لیگ نواز کے بینک اکاؤنٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے 10 کروڑ روپے جمع کروائے گئے جبکہ اسی سال انہوں نے ساڑھے چار کروڑ واپس اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے اس لیے ممکنہ طور پر اس میں منی لانڈرنگ کی گئی ہے۔
پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس فرم نے مسلم لیگ نواز کے اثاثوں اور ذرائع آمدنی و اخراجات کا آڈٹ کیا ہے اس کی کوالٹی کنٹرول ریٹنگ نہیں تھی۔
اسی طرح اسلام آباد میں پارٹی کے دو کروڑ 70 لاکھ کے اثاثے تصدیق شدہ نہیں کیونکہ پارٹی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یہ مسلم لیگ ن کے سیکرٹریٹ کی قیمت ہے جس پر مسلم لیگ ق کی جانب سے غیر قانونی قبضہ ہے۔ اسی طرح پارٹی کے پاس اس کی ملکیت کی دستاویز نہیں ہے جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
 

'پیپلز پارٹی نے 2013 میں 41 کروڑ روپے کے فنڈز ظاہر کیے مگر ان کا ذریعہ نہیں بتایا۔۔۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

فرخ حبیب کی درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلم لیگ نواز لندن میں ایک کمپنی کے طور پر رجسٹرڈ ہے تحقیق کی جائے کہ وہاں سے اس کو کوئی فنڈنگ تو نہیں ہو رہی۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارٹی کی سندھ اور پنجاب کی 2013 سے 2015 تک آڈٹ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 23 لاکھ اور سندھ میں سات کروڑ کے اثاثے غیر تصدیق شدہ ہیں۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ ن لیگ کے اثاثوں کی چھان بین کی جائے اور اس کی شناختی علامت واپس لی جائے۔
فرح حبیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ مسلم لیگ ن سکرونٹی کمیٹی کا مانگا گیا ریکارڈ جمع نہیں کروا رہی تاہم ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما احسن اقبال کا کہنا ہے کہ پارٹی نے الیکشن کمیشن کو تمام دستاویزات فراہم کی ہیں۔
ان کا موقف ہے کہ ’یہ گندی سیاست ہے کہ جب ہم نے پی ٹی آئی سے فارن فنڈنگ کا حساب مانگا تو انہوں نے جوابی درخواست دے دی جس طرح گاؤں دیہاتوں میں ہوتا ہے کہ مخالفین پر جوابی پرچہ دائر کروا دیا جائے۔‘
احسن اقبال کے مطابق پی ٹی آئی آج تک ن لیگ کے خلاف فارن فنڈنگ کا کوئی ثبوت نہیں دے سکی جبکہ پی ٹی آئی کے اپنے بانی رکن نے اپنی جماعت کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کے دستاویزی ثبوت جمع کروا رکھے ہیں۔

'پی ٹی آئی آج تک ن لیگ کے خلاف فارن فنڈنگ کا کوئی ثبوت نہیں دے سکی۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان پیپلز پارٹی پر کیا الزامات ہیں؟

فرخ حبیب کی الیکشن کمیشن میں دائر کردہ درخواست میں پاکستان پیپلز پارٹی پر بھی پارٹی فنڈز کی بے ضابطگیوں اور فارن فنڈنگ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ درخواست میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 2013 میں 41 کروڑ روپے کے فنڈز ظاہر کیے مگر ان کا ذریعہ نہیں بتایا گیا جس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ بیرون ملک سے تو نہیں لیے گئے؟
اس طرح پارٹی لیڈر قواعد کے تحت یہ بیان حلفی الیکشن کمیشن میں جمع کروانے کا پابند تھا کہ فنڈز ممنوعہ ذرائع سے نہیں لیے گئے مگر یہ بیان پارٹی کے سیکرٹری جنرل نے جمع کروایا۔
پیپلز پارٹی نے امریکہ میں پی پی پی ایل ایل سی کمپنی رجسٹر کروائی جس نے پاکستانی حکومت سے بھی فنڈز لیے ہیں جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔ الزام عائد کیا گیا ہے کہ یہ کمپنی پارٹی کے لیے فنڈز جمع کرتی ہے۔
اسی طرح الزام عائد کیا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی نے 2013 کی الیکشن مہم میں 23 کروڑ اخراجات دکھائے مگر یہ اخراجات تصدیق شدہ نہیں ہیں۔ اسی طرح درخواست میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے نام سے دو جماعتیں آپس میں رقوم کا تبادلہ کرتی ہیں جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے۔
درخواست گزار کے مطابق پارٹی کے فنڈز کی چھان بین کی جائے اور اس کی شناختی علامت واپس لی جائے۔
درخواست گزار فرح حبیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ پیپلز پارٹی سکرونٹی کمیٹی کا مانگا گیا ریکارڈ جمع نہیں کروا رہی۔

پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ 2013 میں مسلم لیگ نواز کے بینک اکاؤنٹ میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے 10 کروڑ روپے جمع کروائے گئے۔ فائل فوٹو: روئٹرز

اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی سیکرٹری اطلاعات شازیہ مری کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنے تمام اکاؤنٹس کا حساب الیکشن کمیشن میں جمع کروا دیا ہے اور اس میں کوئی مشکوک ٹرانزیکشن نہیں تاہم پی ٹی آئی کی فنڈنگ میں ایسے لوگوں کے نام آئے ہیں جن سے فنڈز لینا ممنوع ہیں۔ اس پر پیپلز پارٹی کو بھی تشویش ہے۔
’بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی خود سات سالوں سے فارن فنڈنگ کیس سے بھاگ رہی ہے اور عدالت میں سات مرتبہ رٹ دائر کر چکی ہے کہ الیکشن کمیشن کو کیس کی سماعت سے روکا جائے۔ اب جب پی ٹی آئی پر سوال اٹھ رہے ہیں تو اس کا جواب یہ نہیں بنتا کہ پیپلز پارٹی اس کا جواب دے بلکہ پی ٹی آی کو اس کا جواب خود ہی دینا ہو گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سب کو پتا ہے کہ پی پی پی مشرف دور میں پارٹی کے خلاف ہونے والی انتقامی کارروائی کے نتیجے میں اس لیے بنی تھی کہ ڈکٹیٹر کا راستہ روکا جائے۔ پیپلز پارٹی وہی جماعت ہے جسے زولفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔

الیکشن قواعد فارن فنڈنگ پر کیا کہتے ہیں؟

الیکشن ایکٹ کے مطابق سیاسی جماعتیں اپنے ارکان سے ممبرشپ فیس، چندہ یا ڈونیشن لے سکتی ہیں۔ سیاسی جماعتیں پابند ہیں کہ وہ ایک لاکھ روپے سے زائد چندہ دینے والے افراد کی فہرست بھی الیکشن کمیشن کو فراہم کریں۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو کسی غیر ملکی حکومت، تنظیم، فرم، کمپنی یا افراد سے فنڈنگ لینے کی ممانعت ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو مالی سال کے اختتام سے 60 روز کے اندر الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ہوتی ہے جس میں سالانہ آمدن اور اخراجات، حاصل ہونے والے فنڈز کے ذرائع، اثاثے اور واجبات شامل ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ پارٹی کا سربراہ الیکشن کمیشن میں ایک سرٹیفکیٹ بھی جمع کروانے کا پابند ہے جس میں یہ اقرار کیا جاتا ہے کہ تمام مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور کوئی بھی فنڈ کسی ممنوعہ ذرائع سے حاصل شدہ نہیں ہے۔

شیئر: