زمینوں پر قبضہ: فیصلہ ایک سال کے اندر کیا جائے گا، وزیرِ اعظم
زمینوں پر قبضہ: فیصلہ ایک سال کے اندر کیا جائے گا، وزیرِ اعظم
پیر 1 فروری 2021 18:19
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
عمران خان نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ گلگت کو سیاحت کا گڑھ بنایا جائے گا۔ (فوٹو: پی ٹی وی)
وزیراعظم عمران خان نے عوام کو دعوت دی ہے کہ اگر کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ ہوا ہے یا پھر کسی سرکاری زمین پر بااثر افراد نے قبضہ کر لیا ہے تو اس کی اطلاع سیٹزن پورٹل پر دیں حکومت قبضہ گروپ سے زمین واگزار کروائے گی۔
’حکومت سول پروسیجر کوڈ کے ذریعے یقینی بنا رہی ہے کہ زمین وغیرہ کے معاملات پر فیصلہ ایک سال میں ہو جائے۔‘
پیر کو اسلام آباد میں سرکاری ٹی وی پر ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘ نامی پروگرام میں عوام کے ٹیلی فون کالز کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے قبضہ گروپوں کے خلاف سارے پاکستان میں جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اسلام آباد سے ایک کالر محمد مسعود کی جانب سے ان کی زمین پر قبضے کی شکایت پر انہوں نے اپنے سٹاف کو ہدایت کی کہ شکایت کنندہ سے رابطہ کر کے اس کا ازالہ کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نیا قانون لے کر آرہی ہے جس کا پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں آغاز ہو گیا ہے اس کے تحت زمین سے متعلق تنازعات کا فیصلہ ایک سال کے اندر ہو جائے گا جس سے قبضہ گروپوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔
وزیراعظم نے الزام عائد کیا کہ ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ نواز، اور پیپلز پارٹی نے خود قبضہ گروپوں کو پالا ہوا تھا جس سے ان کی فنڈنگ ہوتی تھی اور وہ ان جماعتوں کی اے ٹی ایم مشینیں بنے ہوئے تھے۔ اب ایسے لوگوں کے محلات گرائے جا رہے ہیں۔
لائیو کے بجائے ریکارڈڈ پروگرام کیوں چلا؟
توقع تھی کہ ’آپ کا وزیراعظم آپ کے ساتھ‘ ایک لائیو شو ہو گا تاہم اسے ریکارڈ کرکے شام سات بجے کے بعد نشر کیا گیا۔ پی ٹی وی ذرائع کے مطابق وزیراعظم کی جانب سے کسی سوال کر سینسر کرنے کی ہدایت نہیں تھی تاہم لائیو پروگرام نشر کرنے کی وجہ معمولی ایڈیٹنگ تھی جو سوالات میں نہیں کی گئی بلکہ کچھ جوابات میں تکنیکی ایڈیٹنگ ہوئی۔
پروگرام سے منسلک ایک اہلکار کے مطابق وزیراعظم قدرے تاخیر سے سوا پانچ بجے آئے اور تمام سوالات کے براہ راست جوابات دیے تاہم اکثر کالرز کا مخاطب وزیراعظم کے بجائے ماڈریٹر سنیٹر فیصل جاوید تھے۔
ذرائع کے مطابق ایک منٹ میں تقریبا دس ہزار لوگوں نے کال ملانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے سسٹم پر بہت دباؤ تھا۔ پی ٹی وی عملے نے کال کرنے والوں کی تصدیق کی اور پھر سیاسی سوالات کے بجائے عوامی مسائل پر مبنی سوالات کو وزیراعظم تک پہنچایا۔۔
ویکسین میں کوئی تخصیص نہیں ہوگی
ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ کورونا ویکسین آج ہی پاکستان پہنچی ہے اس کے لیے امیر یا غریب کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اس کے لیے طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ کورونا ویکسین کے لیے بنائے جانے والے طریقہ کار کے مطابق پہلے مرحلے میں طبی میدان سے وابستہ افراد کو ویکیسن دی جائے گی جو براہ راست مریضوں کو ڈیل کرتے ہیں، اس کے بعد 60 سال سے زائد کے افراد کو لگائی جائے گی۔
بقول ان کے ’کوشش ہو گی کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ویکیسن لگے۔‘
جسٹس عظمت سعید کو ہٹائیں گے؟
وزیراعظم سے پوچھا گیا کہ وہ اپوزیشن کے اعتراضات کے بعد براڈ شیٹ انکوائری کمیشن سے سابق جج جسٹس عظمت سعید کو ہٹا کیوں نہیں دیتے تو ان کا کہنا تھا کہ عظمت سعید کی احتساب کے عمل میں مہارت ہے اور وہ نیب میں پراسکیوٹر بھی رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ براڈشیٹ کمپنی نے نواز شریف کی 100 ملین ڈالر جائیداد کی نشاندھی کر دی تھی تاہم مشرف نے نواز شریف کو این آر او دے کر سعودی عرب بھیج دیا جس کی وجہ سے براڈ شیٹ نے کیس کر دیا اور اسے اس رقم کا 20 فیصد حکومت کو دینا پڑا۔ اب ہم چاہ رہے ہیں کہ دوسرا این آر او بھی سامنے لائیں جوآصف زرداری کو دیا گیا جس کی رو سے ان کے سوئس بینکوں میں 60 ملین ڈالر بچ گئے۔
ایک کالر نے پوچھا کہ پی آئی اے کیسے بہتر ہو گی تو وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گزشتہ ادوار میں سیاسی بھرتیاں کر کے پی آئی اے کو تباہ کر دیا گیا۔ اس پر چار سو ارب روپے کا قرض ہے اور ملازمین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ کوشش کر رہے ہیں کہ پی آئی اے کو پروفیشنل ایئر لائن بنایا جائے اور اس کا قرض بھی کسی پلان کے تحت کم کیا جائے۔
وزیراعظم کی فٹنس کا راز، وزن کیوں بڑھ گیا؟
ایک کالر نے وزیراعظم سے ان کی ٖفٹنس کا راز پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تو بشریٰ بی بی ( انکی اہلیہ) وزن کرنے والی مشین لے آئیں اور انہوں نے اپنا وزن چیک کیا تو 200 پاونڈ ہو گیا تھا کیونکہ بطور وزیراعظم آٹھ آٹھ گھنٹے بیٹھنا پڑتا ہے۔ جب کہ پوری زندگی ان کا وزن 185 پاونڈ رہا ۔ انہوں نے کہا کہ جسم اللہ کی نعمت ہے اس لیے ورزش اور مناسب خوراک سے اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
سسٹم ٹھیک کرنے میں ٹائم لگے گا
ایک کالر کے کرکٹ ٹیم کی مایوس کن کارکردگی پر سوال پر ان کا کہنا تھا کہ سب سمجھ رہے تھے کہ ایک دم سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا یہ صرف پریوں کی کہانیوں میں ہوتا ہے کہ جادو کا ڈنڈا چلائیں اور سب ٹھیک۔
تباہی بھی آہستہ آہستہ آئی۔ گزشتہ دس سالوں میں اصل تباہی آئی۔ اب بری عادتیں جانے میں دیر لگتی ہے۔ پنجاب میں پولیس ٹھیک ہونے کے حوالے سے بھی وقت لگے گا۔ پنجاب کے ایک آئی جی عباس خان نے 1993 میں عدالت کو بتایا تھا کہ 25 ہزار لوگ میرٹ کے بغیر پیسے دے کر بھرتی ہوئے ہیں اور کئی مجرم بھی پولیس میں بھرتی ہو گئے ہیں یہ سب ایک دم ٹھیک نہیں ہو گا۔
سسٹم ٹھیک کرنے میں وقت لگے گا۔ کرکٹ بھی اسی طرح ٹھیک ہوگی لیکن اب یہ درست راہ پر آ گئی ہے ۔علاقائی ٹیموں کی وجہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ نئے کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ ہے۔
فارن فنڈگ کیس میں اپوزیشن پھنس گئی ہے
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کا رخ کرتا ہے۔ اپوزیشن نے فارن فنڈنگ کا معاملہ چھیڑ کر خود کو عذاب میں ڈال دیا ہے۔ میں 31 سال سے شوکت خانم کے لیے فنڈز اکھٹے کر رہا ہوں۔ چونکہ مجھے سمجھ تھی اس لیے میں نے پولیٹیکل فنڈنگ اور ڈنرز وغیرہ کے ذریعے پیسے اکھٹے کیے۔
’سب سے زیادہ اورسیز پاکستانیوں نے پیسے دیے۔ میرے پاس چالیس ہزار ڈونرز کی لسٹ موجود ہے مخالفین کو چیلنج ہے وہ سو بھی ڈونرز کے نام دے دیں۔ مخالفین قبضہ گروپوں سے فنڈز لیتے ہیں جن کے محلات گر رہے ہیں، انہی پیسوں سے قیمے والے نان دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فارن فنڈنگ کا مطلب ہے باہر کی حکومت سے پیسے لینا کیونکہ وہ آپ کی پالیسیوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ’اس کی تحقیق ہونی چاہیے مولانا فضل الرحمن کے پاس لیبیا سے پیسہ نہیں آیا؟ کیا نواز شریف کو اسامہ بن لادن نے پیسے دیے؟ یہ بے نظیر بھٹو کی کتاب میں لکھا ہوا ہے۔‘
مہنگائی کیوں کم نہیں ہو رہی؟
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ مہنگائی ہوتی کیوں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے کچھ سال پہلے ایک پیپر چھاپا تھا کہ پاکستان سے دس ارب ڈالر سالانہ باہر جاتا ہے منی لانڈرنگ کے ذریعے۔
’اس سے ڈالر کی کمی ہو جاتی ہے پھر امپورٹ اور ایکسپورٹ کے خسارے کی وجہ سے بھی روپے کی قیمت گر جاتی ہے۔ گزشتہ حکومت نے اربوں ڈالر خرچ کر کے روپے کی قیمت زیادہ رکھی ہوئی تھی۔ ہماری حکومت آئی تو ڈالر نہیں تھے اس لیے روپیہ کی قیمت گری جس سے بجلی گیس سمیت ہر چیز مہنگی ہو گئی۔ اب ہماری حکومت نے امپورٹ ایکسپورٹ برابر کرکے کرنٹ اکاونٹس خسارہ ختم کر دیا ہے ہمارا ملک درست راستے پر چل پڑا ہے۔‘
’گزشتہ دو سال گندم کی پیداوار بھی کم ہوئی کیونکہ بارشیں غلط ٹائم پر ہوئیں۔ چینی بھی باہر سے منگوانی پڑی۔ مجھے مہنگائی کا پورا احساس ہے مگر اس مہینے مہنگائی کم ہو گئی ہے۔‘
اپوزیشن کو این آر او غداری ہوگی
واجد نامی شہری نے سوال پوچھا ’وزیراعظم اپوزیشن کو این آر او کیوں نہیں دے دیتے، اس طرح ان کے ڈرامے ختم ہو جائیں گے۔‘ اس کے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ان کو این آر دینا ہے تو پھر تو ساری جیلیں کھول دینی چاہییں۔ ’وہاں قید لوگوں کا کیا قصور ہے کیونکہ انہوں نے چھوٹی چھوٹی چوریاں کی ہیں۔‘
وزیر اعظم نے کہا کہ انصاف کے بھرپور نظام کے بغیر کسی قوم نے کبھی ترقی نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں نے این آر او دے دیا تو ملک سے غداری ہو گی۔
بلوچستان کے علاقے تربت سے ایک کالر کے سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ حکومت کوشش کر رہی ہے کہ روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں اور ترقیاتی منصوبے بھی شروع کیے جائیں جب کہ انٹرنیٹ سروس بھی فراہم کی جائے گی۔
گلگت سے شعیب نے اپنے علاقے کی ترقیاتی کام نہ ہونے اور لوڈشیڈنگ کے بارے میں سوال پوچھا۔ وزیر اعظم نے ان کو بتایا کہ گلگت کو سیاحت کا حب بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت سوئزرلینڈ سے بڑھ کر ہے لیکن اس کے باوجود ہم اس سے وہ فائدہ اٹھا نہیں پا رہے۔
’سوئزرلینڈ ہر سال 80 ارب ڈالر سیاحت سے کماتا ہے جب کہ پاکستان کے پاس اس سے زیادہ سیاحت ہے لیکن سیاحت سے اتنا فائدہ اٹھایا نہیں جا رہا۔‘
عمران خان نے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ گلگت کو سیاحت کا گڑھ بنایا جائے۔ لاہور سے ایک خاتون کالر نے وزیراعظم سے پوچھا کہ وہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں اور گھر بنانا چاہتی ہیں لیکن ان کے پاس زیادہ رقم نہیں ہے۔
وزیراعظم نے جواب دیتے ہوئے کہا ’نیا ہاؤسنگ سکیم اسی لیے بنائی گئی ہے کہ غریب لوگ گھر بنا سکیں اور جو پیسے وہ سال بھر کرائے کی مد میں دیتے رہتے ہیں وہ قسطیں ادا کر دیں اور اس طرح ان کا اپنا گھر بن جائے۔‘
وزیر اعظم نے بتایا ’بینکوں کو ہدایت جاری کی گئی ہیں اور وہ قرضوں کے لیے آج کل اشتہار بھی چلا رہے ہیں۔‘ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نیا پاکستان ہاؤسنگ کے تحت بننے والے گھروں کے لیے حکومت سبسڈی بھی دے گی۔
ختم نبوت اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اس کا سلسلہ 1989 میں اس وقت شروع ہوا جب سلمان رشدی نے گستاخانہ کتاب لکھی۔ ’پوری اسلامی دنیا کے سربراہان مل کر جب تک بین الاقوامی سطح پر کوشش نہیں کرتے یہ مسئلہ حل ہونا مشکل ہے کیونکہ مغرب میں لوگوں کو اس کی سمجھ ہی نہیں ہے۔‘