Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزرائے اعظم سے ٹیلی فون پر عوامی رابطہ پہلے کب اور کیسے ہوتا رہا؟

نوے کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف عوام سے فون پر براہ راست مخاطب ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم عمران خان پیر کو ٹیلی فون پر براہ راست عوامی مسائل سن رہے ہیں۔ تاہم پاکستان میں یہ پہلی بار نہیں کہ وزیراعظم یا صدر عوام سے براہ راست مخاطب ہوں۔
اس سے قبل نوے کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف پھر 2011 میں پاکستان پیپلز پارٹی کے وزیراعظم یوسف رضاگیلانی بھی عوام سے فون پر براہ راست مخاطب ہو چکے ہیں جبکہ سابق صدر مشرف بھی 2007 میں ایوان صدر میں عوامی نشستیں کر چکے ہیں جنہیں ٹی وی پر براہ راست نشر کیا جاتا تھا۔
نواز شریف سے آغاز
وزیراعظم کی بذریعہ ٹیلی فون عوام سے براہ راست عوامی رابطے کا سلسلہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے 1997 میں شروع کیا تھا جب وہ ہفتے کے دن فون کال پر لوگوں کے مسائل سنتے تھے۔

 

 اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ڈائرکٹر نیوز مزمل احمد خان نے بتایا کہ وہ اس وقت اس پروگرام کی نگرانی کرتے تھے۔ وزیراعظم ایک کمرے میں بیٹھ کر فون سنتے تھے اور دوسرے کمرے میں ریکارڈنگ ہوتی تھی جسے بعد میں ایڈیٹ کر کے چلایا جاتا تھا اور پی ٹی وی کے نو بجے کے خبرنامے میں بھی چند کالز چلائی جاتی تھیں جن پر فوری ایکشن کیا گیا ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کئی بار وزیراعظم نواز شریف کال کرنے والوں کے گھر بھی گئے اور موقع پر جا کر متعلقہ محکمے سے ایکشن کا کہا اور اس طرح بہت سارے لوگوں کے مسائل حل کیے گئے جو زیادہ تر عوامی نوعیت کے ہوتے تھے جیسے سرکاری محمکوں سے متعلق شکایات وغیرہ۔
جنرل مشرف کی عوامی نشستیں
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے بھی 2007 میں اپنے اقتدار کے اختتام کے قریب ’ایوان صدر سے‘ کے نام پر ایک ٹی وی پروگرام شروع کیا تھا جس میں وہ براہ راست عوامی شکایات سنتے تھے۔
اس پروگرام کے پروڈیوسر سابق جنرل منیجر پی ٹی وی راجہ مصدق کے مطابق اس میں حصہ لینے والے لوگوں کا موضوع کے مطابق پہلے انتخاب کیا جاتا تھا اور ہر طبقہ فکر کو نمائندگی دی جاتی تھی تاہم یہ پروگرام ریکارڈ ہوتا تھا۔
راجہ مصدق کی ٹیم کے ایک رکن کے مطابق جنرل مشرف ہر طرح کے سوالوں کا جواب دیتے تھے اور اپنے سٹاف کو بھی ہدایت کر رکھی تھی کہ اگر سخت سوال بھی آجائے تو پی ٹی وی پر اسے سنسر کرنے کے لیے دباو نہ ڈالے۔

راجہ مصدق کی ٹیم کے ایک رکن کے مطابق جنرل مشرف ہر طرح کے سوالوں کا جواب دیتے تھے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے ایک واقعے کے بارے میں بتایا ایک پروگرام میں ایک خاتون ٹیچر نے جنرل مشرف سے کہا کہ ان کا ریفرنڈم دھاندلی ذدہ تھا اور بطور ٹیچر انہوں نے خود ایک ایک شخص کو کئی کئی بار ووٹ ڈالتے دیکھا ہے۔ ایسے میں وہ آزادانہ انتخابات کیسے کروائیں گے؟
اس سوال پر ریکارڈنگ عملہ بھی گبھرا گیا تھا، تاہم جنرل مشرف نے اس سوال کا اطمینان سے جواب دیا اور بعد میں اپنے ترجمان میجر جنرل راشد قریشی کو ہدایت کی کہ پی ٹی وی پر یہ سوال اور جواب چلنے دیں۔ یہ پروگرام سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کی وجہ سے ایک ہفتے تک ملتوی ہوا تاہم وہ ایک ہفتے بعد پی ٹی وی پر نشر ہوا تھا۔
یوسف رضا گیلانی کی رابطہ عوام مہم
سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے 2011  سے ہر مہینے کی پہلے تاریخ کو ٹیلی فون پر براہ راست عوامی مسائل سننے کا سلسلہ شروع کیا جسے پی ٹی وی پر نشر بھی کیا جاتا تھا۔
اس پروگرام کے پروڈیوسر بھی راجہ مصدق تھے۔ ان کے مطابق اس پروگرام میں پرائیویٹ چینلز سے اینکرز بھی شریک ہوتے تھے۔ عوام کے سوالات براہ راست وزیراعظم سے ہوتے تھے اور ان میں کوئی مداخلت نہیں کی جاتی تھی۔ ہاں کال کرنے والے کی تصدیق کی جاتی تھی کہ وہ اصل نمبر سے مخاطب ہے۔  
یوسف رضا گیلانی کو سرگودھا سے زینب نامی لیڈی ہیلتھ ورکر نے کال پر شکایت کی کہ اس کو بھٹو دور میں پانچ مرلے زمین دی تھی جو مرکزی شاہراہ پر آ گئی جس پر بااثر لوگ اس سے وہ زمین ہتھیا رہے ہیں۔ وزیراعظم نے متعلقہ سیکرٹری اور ڈی سی کو اس کی مدد کی ہدایت جاری کی۔ ت
اہم اگلے ماہ اس خاتون کی کوئی داد رسی نہ ہوئی تو اس نے کال دوبارہ وزیراعظم سے ملائی جس پر  فوری ایکشن ہوا اور اس کی زمین اس کے حوالے کر دی گئی۔ اسی طرح کئی لوگوں کے مسائل حل کیے گئے۔

یوسف رضا گیلانی کو سرگودھا سے زینب نامی لیڈی ہیلتھ ورکر نے کال پر شکایت کی (فوٹو: اے ایف پی)

لائیو کال میں بدمزگی سے بچنے کے اقدامات کیا ہوتے ہیں
دو سابق سربراہان کے فون پروگرام سے منسلک رہنے والے پی ٹی وی کے ایک اعلی افسر کے مطابق لائیو کال میں کسی بدمزگی سے بچنے کے لیے دو طرح کے اقدامات کیے جاتے ہیں۔
ایک تو کال کرنے والے کی شناخت کی تصدیق کی جاتی ہے تاکہ کوئی جعلی نام سے کال نہ کرے۔ اس کے علاوہ کئی بار کال کرنے والے اپنے خاندانی مسائل کی بات کرتے ہیں جو عوامی نوعیت کے نہیں ہوتے اس لیے عملہ کئی بار کال کرنے والے فرد سے مسئلہ پوچھتا ہے اگر وہ عوامی نوعیت کا ہو تو اس کی وزیراعظم کے ساتھ بات کرا دی جاتی ہے۔
اس کے بعد بھی اگر کال کرنے والا وزیراعظم کے ساتھ بات کرتے وقت کوئی غیر اخلاقی یا نازیبا بات کر دے تو اس کے لیے آواز میوٹ کرنے کا آپشن موجود ہوتا ہے کیونکہ نشریات چند سیکنڈ کے فرق سے لائیو ہوتی ہیں اور سٹوڈیو میں بیٹھا عملہ آڈیو بند کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

شیئر: