سعودی خاتون شمشیر زن ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کے لیے پرعزم
سعودی خاتون شمشیر زن ٹوکیو اولمپکس میں شرکت کے لیے پرعزم
منگل 9 فروری 2021 2:15
المصری نے اپریل 2018 میں شمشیر زنی شروع کی تھی(فوٹو عرب نیوز)
سعودی عرب کی چند نوجوان خواتین کے لیے شمشیر زنی ایک خاص کھیل ہے۔
21 سالہ شمیشر زن ربی المصری نے کہا ’ شمشیر زنی نے مجھے صبر، انصاف اور غصے پر قابو پانا سکھایا۔‘
المصری نے اپنے والد کے ایتھلیٹک کیریئر سے متاثر ہو کر تین سال قبل شمشیر زنی شروع کی اور اس کے بعد وہ مقامی اور بین الاقوامی چیمپئن شپ میں چاندی اور سونے کے تمغے جیت چکی ہیں۔
المصری نے عرب نیوز کو بتایا ’چھوٹی عمر سے ہی میں اپنے والد کی تصاویر اور میڈل دیکھتی تھی جو انہوں نے اپنے کیریئر کے دوران حاصل کیے تھے۔‘
’میرا خاندان میری پہلی سپورٹر ہے جس نے مجھے کہا کہ میں اپنے والد کے نقش قدم پر چلوں اور اپنا سفر شروع کروں۔‘
سعودی خواتین نے پہلی بار 2016 کے اولمپکس میں حصہ لیا تھا اس وجہ سے سعودی عرب نے کھیلوں میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت دیکھی ہے اور شمشیر زنی سب سے زیادہ دلکش کھیل کے طور پر سامنے آئی ہے۔
سعودی عرب فینسنگ فیڈریشن کے صدر احمد الصبان نے عرب نیوز کو بتایا ’اب تک سعودی خواتین شمشیر زنوں کی تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے اور رواں سال سعودی فینسنگ کی تاریخ میں پہلی پانچ خواتین ریفریز کو گریجویٹ کرنے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔‘
الصبان نے کہا کہ اس کھیل میں خواتین کی شرکت کا آغاز 2015 میں مشرقی صوبے سے ہوا۔اس خطے سے تعلق رکھنے والی خواتین شمشیر زنوں نے اس کی مشق کے لیے بحرین کا سفر کیا۔ ان شمیشر زنوں میں سے ایک لبنی العمیر کو 2016 کے اولمپکس میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
سعودی عرب فینسنگ فیڈریشن کے صدر نے کہا ’ 2017 سے ریاض،جدہ اور دمام میں خواتین کی تین اکیڈمیاں قائم کی گئیں۔ ہم مملکت کے تمام ریجنز میں خواتین کی فینسنگ اکیڈمیوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔‘
الصبان نے جدہ میں واقع سات سکولوں میں اپنی ابتدا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ 1960 کی دہائی سے ہی مملکت میں شمشیر زنی کا کھیل چل رہا ہے۔ بہت سارے تارکین وطن جو مملکت میں تیل کی دریافت کے بعد ظہران چلے گئے تھے نے بھی اس کھیل کو سعودیوں سے متعارف کروانے میں اپنا کردار ادا کیا۔
ان کے مطابق یہ کھیل پہلے مشرقی صوبہ اور تبوک میں مقبول ہوا اور پھر ملک کے تمام ریجنوں میں پھیل گیا۔ سعودی فینسنگ فیڈریشن آج جدہ، ریاض، طائف، مدینہ، تبوک اور مشرقی صوبے میں اکیڈمیاں چلا رہی ہے۔
المصری نے اپریل 2018 میں شمشیر زنی شروع کی تھی جب وہ سعودی فینسنگ فیڈریشن کے ذریعے شروع کیے گئے سمر اولمپک فینسگ پروگرام میں شامل ہوئی تھیں۔
المصری نے کہا ’شمشیر زنی ایک ولولہ انگیز اور دلچسپ کھیل ہے۔ اس سے عزم اور درستگی کے لحاظ سے کھلاڑی کی شخصیت میں بہتری آتی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس کھیل میں’ تمام حواس بیک وقت استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جس سے کسی کی حاظر جوابی اور مشاہدہ بہتر ہوتا ہے۔‘
المصری ابتدا ہی سے اس کھیل کی گرویدہ تھیں۔
’ایمانداری سے کہوں تو اس کھیل میں مجھے سب سے زیادہ پرکشش چیزوں میں سے ایک اس کی خوبصورتی اور یہ کہ یہ دوسرے کھیلوں سے کس طرح مختلف ہے کیونکہ اس میں تقریباً پورے جسم کا احاطہ ہوتا ہے۔‘
مملکت میں پہلی ویمنز فینسنگ چیمپیئن شپ میں سونے کا تمغہ جیتنے کے بعد المصری نے مصر، تیونس، کویت،اردن اور فلپائن میں بین الاقوامی سطح پر سعودی عرب کی نمائندگی کی ہے۔
المصری نے مزید کہا ’میں نے یہ بھی سیکھا کہ کامیابی صرف سونے کے پہلے تمغے سے شروع نہیں ہوتی ہے۔اس کے بجائے اس کا آغاز استقامت اور ترقی سے ہوتا ہے۔‘
اب المصری کے ٹوکیو اولمپکس میں حصہ لینے کے عزائم ہیں اور انہوں نے سونے کا تمغہ جیتنے والی پہلی سعودی خاتون بننے پر نگاہ رکھی ہے۔ وہ ایشین چیمپین شپ اور فینسنگ ورلڈ کپ میں بھی کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہیں۔
انہوں نے کہا ’ شمشیر زنی کے لیے مخصوص جسمانی معیار کی ضرورت نہیں ہوتی ہے لہذا ہر کوئی ہر عمر میں اس کی مشق کر سکتا ہے تاہم اگر آپ چیمپیئن بننا چاہتے ہیں تو نوجوانی سے آغاز کرنا قابل ترجیح ہے۔
سعودی عرب فینسنگ فیڈریشن کے صدر الصبان نے اتفاق کیا کہ شمیشر زنی سیکھنے کی کوئی شرط نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ یہاں بہت سے بہتر طریقے ہیں جن سے اس کھیل میں کامیاب ہونے میں مدد ملے گی جیسے روزمرہ کی تربیت،صحت مند غذا، فٹنس اور اچھی نیند۔
انہوں نے کہا ’سعودی فینسنگ فیڈریشن کھیلوں کی دیگر فیڈریشنوں کو مات دے کر خواتین کے کھیلوں کی صف اول کی رہنما ہے۔
’ہم امید کرتے ہیں کہ سعودی قیادت اس کی سپورٹ جاری رکھے گی۔ یہ مملکت کی تمام خواتین کی پہلی پسند ہو گی اور ہم تمام ٹورنامنٹس میں طلائی تمغے جیتنا جاری رکھیں گے۔‘