Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سینیٹ الیکشن اور سیاسی امتحان 

وزیراعظم عمران خان نے سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت پر کئی بیانات دیے۔ فائل فوٹو: عمران خان فیس بک
الیکشن سیاسی جماعتوں کا امتحان ہوتا ہے جس کی تیاری برسوں کی جاتی ہے۔ عام امتحانات کا غلغلہ تو عرصہ پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے مگر سینیٹ جیسے بالواسطہ انتخاب بھی سیایسی بساط میں کلیدی اہمیت رکھتے ہیں۔  
موجودہ سینیٹ کے انتخابات کو ہی لیجیے۔ اڑھائی سال سے پی ٹی آئی اس انتظار میں تھی کہ سینیٹ انتخاب کے بعد ان کی قانون سازی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہوں گی۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ کو عدم اعتماد سے تو بچا لیا مگر سینیٹ میں ان کو ٹف ٹائم ہی ملا۔  
نمبر گیم میں تو اس انتخاب میں سیدھے فارمولے کے مطابق سیٹیں حصے کے مطابق آنی تھیں مگر الیکشن سے عین مہینہ ہی قبل حکومت نے انتخاب اوپن بیلٹ یا شو آف ہینڈ سے کرانے کی تابڑ توڑ کوششیں شروع کر دیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سینیٹ الیکشن اوپن ہونے چاہئیں اور پی پی پی اور ن لیگ کی بھی یہی پوزیشن رہی جس سے پیچھنے ہٹنے پر ان کو سُبکی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ مگر پی ٹی آئی کے اس اصرار کے پیچھے بھی وجوہات کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ وجوہات پی ٹی آئی کی مستقبل کی سیاسی حیثیت کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی۔   
آئینی نکتے کا تعین تو سپریم کورٹ میں ہو جائے گا مگر سوال البتہ قانونی سے زیادہ سیاسی بھی ہے۔ سب ہی جانتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں اصول کے ساتھ ساتھ اپنا مفاد بھی مدنظر رکھتی ہیں۔ اڑھائی سالوں میں کم ہی سہی مگر قوانین اتفاق رائے سے پاس بھی ہوئے۔ اگر الیکشن اصلاحات پر ترمیم باقاعدہ طور پر آتیں تو فاٹا انضمام کی طرح اس پر اتفاق بھی ہو سکتا تھا۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ ان سارے فوری اقدامات کے پیچھے حکومت کا عدم تحفظ ہے مگر سوال پھر پیدا ہوتا ہے کہ یہ عدم تحفظ اگر اپوزیشن کے بجائے حکومت کو درپیش ہے تو اس کے کیا سیاسی مضمرات ہیں؟   

تحریک انصاف نے فیصل واوڈا، ثانیہ نشتر اور حفیظ شیخ کو بھی سینیٹ الیکشن کے لیے ٹکٹ دیے ہیں۔ فوٹو: اے پی پی

سب سے پہلے تو پی ٹی آئی کا ڈسپلن یا کہیے ڈسپلن کی عدم موجودگی کھل کر سامنے آئی ہے۔ ان کے دونوں وزرائے اعلیٰ کے بارے میں اب کوئی دو رائے نہیں کہ ان کا اپنے پارلیمانی گروپس پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ تمام جوڑ توڑ اور ملاقاتیں وزیراعظم خود ہی کر رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بھی سامنے آ رہے ہیں۔ 
بلوچستان کے سینیٹ کے امیدوار کے خلاف کھلی بغاوت ہو کر ٹکٹ واپس ہوا اور اسلام آباد میں جہانگیر ترین اور ان کے گروپ کی سرگرمیوں پر خبریں گرم ہیں۔ ایک خبر کے مطابق ان کی یوسف رضا گیلانی سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
خیبر پختونخوا میں وزرا کا ایک موثر گروپ اس سے پیشتر فارغ کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح پنجاب میں بھی ایک سے زیادہ ناراض گروپ ہیں۔ کیا یہ سینیٹ انتخابات میں کوئی سرپرائز دیں گے اور اوپن بیلٹ پر اصرار اس سرپرائز کو روکنے کے لیے کیا جا رہا ہے؟

سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ سے کرانے کے لیے سپریم کورٹ میں مقدمہ زیر سماعت ہے۔ فوٹو: روئٹرز

سینیٹ کا انتخاب اپوزیشن سے زیادہ حکومت کے لیے مشکل امتحان ثابت ہو رہا ہے۔ اگر سینیٹ انتخاب میں حکومتی ووٹ خریدنے کی خبروں میں صداقت ہے تو یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ دیدہ دلیری اور بے خوفی کا جو ایجنسیوں، نیب اور دیگر اداروں کی موجودگی میں کی جا رہی ہے۔ اگر پی ٹی آئی بطور حکومتی پارٹی ان عناصر کو روکنے سے قاصر ہے تو اس کی سیاسی گرفت پر بھی سوالیہ نشان پیدا پوتے ہیں۔ کیا پی پی پی کی ان ہاؤس تبدیلی کے دعوے میں جان تو نہیں پڑ رہی؟ کچھ ہفتے پہلے تک تو یہ دعوے شیخ چلی کا خواب لگتا تھا مگر  پی ٹی آئی کیمپ میں اضطراب کچھ اور ہی کہانی سنا رہا ہے۔ 
اس کہانی کا اگلا موڑ کچھ ہفتوں میں سامنے آ جائے گا مگر اس کے بعد بھی پی ٹی آئی کو سمجھنا ہے کہ سیاسی امتحان چلتے رہیں گے اگر وہ سمجھیں تو! 

شیئر: