عموماً دیکھا گیا ہے کہ بیشتر سیاست دان لکھنے والوں اور صحافیوں کے متعلق دوہرے رویے کا شکار ہوتے ہیں۔ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو انھیں ہر لکھنے والے میں جمہوریت کا چراغ جلتا نظر آتا ہے اور جب یہی سیاست دان حکومت میں آجاتے ہیں تو وہی لفظ جن کی بے باکی پر وہ عش عش کرتے تھے انھی کو بغاوت تصور کرتے ہیں۔
سینیٹر مشاہد اللہ خان ایسے نہیں تھے۔ وہ اپوزیشن میں بھی اتنے ہی دوست تھے جتنے وزیر کے عہدے پر براجمان ہو کر رہے۔ ان کی شخصیت کے بھی اگرچہ دو روپ تھے مگر اس کی تفصیل کچھ مختلف ہے۔
مزید پڑھیں
-
اسحق ڈار کو مشاہد اللہ نے کیا مشورہ دیا؟Node ID: 331871
-
لگتا ہے فواد چوہدری کابینہ میں نہیں رہیں گے،مشاہد اللہNode ID: 397776
-
مشاہد اللہ خان کا انتقال، ’غیر معمولی ساتھی ہمیں چھوڑ گئے‘Node ID: 542051
مشاہد اللہ خان کا ایک روپ وہ ہے جو فلور آف دی ہاؤس پر نظر آتا تھا، جہاں وہ ایک شعلہ بیان مقرر تھے، مخالفین پر تاک تاک کر ایسے وار کرتے کہ کسی سے ان کے جملے کی کاٹ سہی نہ جاتی تھی، شعر کا ایسا برجستہ ذوق کم ہی لوگوں کو حاصل تھا، جس لحن سے وہ شعر پڑھتے اس سے معنی دو چند ہو جاتے، مطالعے کا بہت شوق تھا، ہر شاعر سے ان کی ذاتی علیک سلیک رہتی تھی، پھر اس کا کلام بھی ان کو ازبر تھا۔
اس دَورِ پُرخار میں وہ حکومتی بنچز کے شور و غوغے کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے۔ ان کے ترکش میں کئی تیر تھے، جگت سے بھی باز نہیں آتے تھے۔
جمہوریت اور جمہوری روایات پر کٹ مرنے کو تیار رہتے تھے۔ ایسے موقعوں پر آپ کو وہ مشاہد اللہ نظر آتے تھے جن کے لفظوں سے جمہوریت کے نام پر ہونے والے فراڈ کی قلعی لمحوں میں کھل جاتی تھی، وہ مختصر لفظوں میں اپنا مدعا بیان کرتے، اپنی پارٹی کے دفاع پر جان کی پرواہ نہ کرتے تھے، آمریت کے فخریہ ازلی دشمن کہلاتے تھے۔

جنرل مشرف کے مارشل لا میں جلوس نکالتے، گرفتاریاں دیتے، ٹریڈ یونینز کو متحرک کرتے ہوئے وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوئے تھے۔ بڑے بڑے طرم خان ان کی تقریر سے تھر تھر کانپتے تھے، لگی لپٹی رکھنے کا ان کو کوئی یارا نہ تھا، وہ ببانگ ِدہل اپنا مدعا بیان کرتے، ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور بے خوف ہو کر سرکاری ترجمانوں سے بھڑ جاتے۔
ٹاک شو ہو یا اسمبلی کا فلور، ان کے نظریے اور نکتہ نظر میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا، اس معاملے میں وہ یک رنگی کا شاہکار تھے، دوغلا پن ان میں نام کو نہیں تھا۔
اس ملک کی سیاست کو انھوں نے کارکن کی سطح سے لے کر سینیٹر کے مقام تک دیکھا، اس جدوجہد نے ان کا جمہوریت پر ایمان غیر متزلزل کر دیا تھا، وہ سول سپرمیسی کے لیے اپنی ذات سے لےکر جماعت تک ہر جگہ سرگرم ِعمل نظر آتے تھے، وہ بے پناہ سیاسی سوجھ بوجھ کے مالک تھے، وہ اس راہ پُرخطر کے سارے رموز سے آگاہ تھے۔ اپنے موقف پر ڈٹ جانا ان کے لیے مشکل نہیں تھا کہ یہ تو ان کی شخصیت کا حصہ تھا، ان کی سیاسی تربیت کا نتیجہ تھا، ان کی سوچ کا عکس تھا، ان کے لیے عادت کی طرح آسان تھا۔
مشاہد اللہ خان کی شخصیت کا دوسرا روپ آپ کو نجی محفلوں میں دکھائی دیتا تھا۔ ان محفلوں میں وہ نہ شعلہ بیان مقرر ہوتے تھے، نہ جلالی اپوزیشن لیڈر ہی تھے بلکہ ان لمحوں میں وہ صرف دوست تھے، چھوٹے بڑے ہر شخص کے دوست۔ ایسے میں لطیفے بھی سنے جاتے، کثیفے بھی کہے جاتے، شفقت کا مظاہرہ بھی ہوتا، محبت کا برتاؤ بھی، شعر و سخن کا دَور بھی چلتا، رومانیت کا ذکر بھی ہوتا۔ ایسے لمحات میں آپ بالکل بھول جاتے کہ یہ وہی شخص ہے جو بجلی بن کر اپنے مخالفین پر برستا ہے، آپ کو یاد تک نہ آ سکتا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جو اپنے موقف کی حمایت میں ایک جنگجو کی طرح ڈٹ جاتا ہے۔

مشاہد اللہ خان اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں، خود فون اٹھاتے، کبھی کسی سیکرٹری نے یہ نہیں کہا کہ ’صاحب میٹنگ میں ہیں۔‘ اگر کبھی فون نہ اٹھا پاتے تو بعد میں ان کا فون ضرور آتا، پہلے معذرت کرتے پھر بات آگے بڑھاتے لیکن ان کی شخصیت کا یہ روپ وہ نہیں جس کا تذکرہ اول الذکر کیا گیا تھا۔
نجی محفلوں میں جب گفتگو میں نواز شریف اور مریم نواز کا ذکر آ جاتا تو مشاہد اللہ خان کی جون ہی بدل جاتی، ان کی آنکھوں میں چمک اور لہجے میں لوچ آ جاتا۔ بہت تفصیل سے نواز شریف سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے۔
مریم نواز کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لہجے میں پدرانہ شفقت آ جاتی۔ وہ سمجھتے تھے کہ نواز شریف کے بعد مریم نواز ہی اس پارٹی کی قیادت کی درست حق دار ہیں۔
وہ اپنی پارٹی میں موقع پرست اور وفا فروش لوگوں سے بھی واقف تھے ان پر کڑھتے بھی تھے اور نجی محفلوں میں کھل کر ان کے نام بھی لیتے تھے لیکن ان کی یہ گفتگو آف دی ریکارڈ تھی، اس کو آف دی ریکارڈ رکھنے میں ہی عافیت ہے۔ جمہوریت اور میاں نواز شریف سے ان کی وفاداری آخری لمحوں تک غیر مشروط رہی۔
