ڈسکہ میں جس دیدہ دلیری کا مظاہرہ کیا گیا وہ اپنی مثال آپ تھا. (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ڈسکہ ضمنی انتخاب میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ مسلم لیگ ن کی بہت بڑی کامیابی تصور کیا جا رہا ہے۔ جس طریقے سے ڈسکہ کے حالات سامنے آئے اس کے خلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ تاریخی بتایا جا رہا ہے۔
فیصلے کے مطابق نہ صرف پورے حلقے میں ری پولنگ ہوگی بلکہ ذمہ دار افسران کے خلاف تادیبی کارروائی بھی کی گئی، ان کو طلب بھی کیا جا رہا ہے اور ان کی معطلی کی بھی خبریں منظر عام پر آ رہی ہیں۔
ڈسکہ میں جس دیدہ دلیری کا مظاہرہ کیا گیا وہ اپنی مثال آپ تھا۔ ہر شخص کے موبائل میں وہ وڈیوز محفوظ ہیں۔ کہیں فائرنگ ہو رہی ہے، کہیں ووٹنگ کو سست رو کر دیا گیا ہے، کہیں حکومت کے کارندے اپوزیشن کے خلاف جعلی ایف آئی آر درج کرانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
کہیں پولنگ کا عملہ غائب ہو گیا ہے، کہیں دھند چھا گئی ہے، کہیں موبائل بند ہو گئے ہیں، کہیں راستہ نہیں مل رہا اور کہیں اغوا کننددگان کو پولیس کی معیت میں دوبارہ لائن حاضر کیا جا رہا ہے۔
نتائج مبینہ طور پر مرضی سے تبدیل کیے جا رہے ہیں، حکومتی امیدوار سرعام دھونس جما رہے ہیں اور دھمکیاں دے رہے ہیں۔ علاقے میں پولنگ کے دوران اور پولنگ سے پہلے خوف و ہراس پھیلایا جا رہا ہے اور سرکاری عملے کو حبس بے جا میں رکھا جا رہا ہے۔
تماشہ یہ ہے کہ کوئی پولنگ ایجنٹ جذباتِ ملی سے مغلوب، حق کا عَلم بھی ایک وڈیو میں بلند کر رہا ہے، الیکشن کمیشن اس دھاندلی کا بروقت نوٹس لے رہا ہے اور چینل اس کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
عوام کو اس عمل سے مسلسل با خبر رکھا جا رہا ہے، تجزیہ کاران ِملت اس صورتِ حال پر احتجاج کر رہے ہیں، مریم نواز اور رانا ثنا اللہ کے بیانات بار بار ٹی وی پر سامنے آ رہے ہیں اور حکومت کی بوکھلاہٹ کو سرعام دکھایا جا رہا ہے۔
الیکشن کمیشن ایک ایسے غیر جانبدار ادارے کے طور پر سامنے آیا جس نے نہ استعماری قوتوں کی پرواہ کی، نہ خوف سے اس کو کوئی جھرجھری آئی اور نہ حکومت کے عتاب سے ڈرا۔
الیکشن کمیشن کا یہ کردار ہمارے لیے نیا ہے۔ پہلے بھی اس ملک میں ہر انتخابی عمل میں بے ضابطگیاں ہوتی رہی ہے، پہلے بھی جھرلو پھرنے کے الزامات سامنے آتے رہیں ہیں، لیکن نہ کبھی ایسا فیصلہ آیا، نہ کبھی فوری ایکشن ہوا، نہ کبھی ایسا فیصلہ آیا، نہ اس کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔
آپ کو 2018 کا الیکشن تو یاد ہی ہو گا، اس وقت بھی دھاندلی کی بڑی ہاہا کار مچی تھی۔ آپ کو یاد ہی ہو گا کس طرح الیکشن سے پہلے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کی گئی تھیں، کس طرح بلوچستان کی حکومت کو چلتا کیا گیا تھا، کس طرح جی ڈی اے، باپ، ایم کیو ایم اور ق لیگ کی رہنمائی کی گئی تھی اور کس طرح الیکشن کے دن پولنگ سست کرائی گئی تھی۔
کس طرح امیداروں کی وفاداریاں تبدیل کی گئی تھیں، کس طرح فارم 45 غائب ہوئے تھے، کس طرح خوف کی ایک فضا بنائی گئی تھی اور کس طرح میڈیا پر الیکشن کی شفافیت کی قسمیں کھائیں گئی تھیں۔ یہ بہت پرانی بات نہیں ابھی 2018 کا ہی قصہ ہے اور سب کو یاد ہے۔
ڈسکہ الیکشن میں دھاندلی کے حوالے جو کچھ الیکشن کمیشن نے کیا وہ قابلِ تحسین ضرور ہے لیکن تحسین کے ڈونگرے صرف ایک حلقے کے الیکشن کے لیے کیوں سنبھال کر رکھے گئے۔ ایک حلقے کے الیکشن میں ہی کیوں شفافیت یاد آ گئی، ایک حلقے میں ہی کیوں دھاندلی نظر آ گئی، ایک حلقے میں ہی کیوں انصاف کا بول بالا ہوا اور ایک حلقے میں ہی کیوں منصفانہ انتخابات یاد آ گئے۔
ڈسکہ الیکشن کا فیصلہ ملک کی الیکشن کی تاریخ کے تناظر میں ایک لالی پاپ لگتا ہے جس سے اپوزیشن چپ ہو جائے گی۔ وہ اس پر بھلے تعریف کے قلابے ملا دیں، بھلے شادیانے بجائیں یا بھنگڑے ڈالیں، انتخابی بے ضابطگیوں کے معاملات ڈسکہ کے حلقے سے زیادہ گھمبیر ہیں۔ جب تک اس سلسلے کو 2018 سے نہیں جوڑا جائے گا تمام تر کاوش بے سود ہے۔ اس کا سدباب ضرور ہونا چاہیے مگر یہ انصاف صرف ایک حلقے تک محدود نہیں رہنا چاہیے، خوشیاں منانا بہت اچھی بات مگر خوشیاں منانے میں جلدی نہیں کرنی چاہیے۔