پاکستان اور انڈیا نے مشترکہ اعلامیے میں فائر بندی معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب واقع دیہات میں رہنے والے کشمیریوں نے پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ فائر بندی کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے تاہم ان میں سے چند ایک نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ یہ معاہدہ قائم نہ رہ سکے گا۔
پاکستان اور انڈیا نے 2003 میں کنٹرول لائن پر فائر بندی کا معاہدہ کیا تھا لیکن اس پر پر حالیہ سالوں میں عمل درآمد نہیں ہو رہا تھا اور فائرنگ کے تبادلے سے ہونے والے ہلاکتوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعرات کو انڈیا اور پاکستان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وہ سیز فائر معاہدے کی پاسداری کریں گے۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سرحدی گاؤں چرنادا نامی گاؤں کے سرپنچ لال دین کھٹانہ کا کہنا ہے ’اس نے ہمیں نئی زندگی فراہم کر دی ہے، ہم ہر وقت خوف کی حالت میں جی رہے تھے کہ ہم کو نشانہ بنا دیا جائے گا۔‘
کھٹانہ کا مزید کہنا تھا کہ پچھلے سال شیلنگ کی وجہ سے گاؤں کے دو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ تقریباً 1600 افراد پر مشتمل گھر گاؤں کے بیشتر لوگ نئے اعلان کی خوشی میں جمع ہوئے تھے۔
انہوں نے روئٹرز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ ’خوف کی فضا کی وجہ سے ہماری کاشتکاری بھی متاثر ہو رہی تھی اور بچے سکول جانے سے بھی خوفزدہ تھے۔‘
کشمیر طویل عرصے سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تناؤ کی بنیادی وجہ رہا ہے۔ جس کی شدت اس وقت بڑھ گئی جب اگست 2019 میں نئی دہلی نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی اندرونی خودمختاری ختم کرتے ہوئے اس کو دو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
انڈین اعدادوشمار کے مطابق 2018 سے لے کر اب تک 70 عام شہری اور 72 سکیورٹی اہلکار بارڈر پر ہونے والی فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
جبکہ پاکستانی ملٹری ذرائع کے مطابق پاکستان کی طرف 2014 سے لے کر اب تک 300 عام شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان کے زیرانتظام کمشیر کی وادی نیلم کے گاؤں بان چتر کے رہائشی دانش شیخ کہتے ہیں کہ ’ہم نئے اعلان کا خیرمقدم کرتے ہیں، یہ ہمیں خوف سے آزاد زندگی گزارنے میں معاون ہو گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کون جانتا ہے کہ دونوں کب تک اس سمجھوتے پر عملدرامد کریں گے؟
پرفضا وادی نیلم میں 2003 میں ہونے والے سیز فائر معاہدے کے بعد کئی ہوٹل اور گیسٹ ہاؤسز کھل گئے تھے اور سیاحوں نے بھی یہاں کر رخ کر لیا تھا، لیکن فائرنگ کے واقعات میں اضافے کی وجہ سے سیاحوں نے آنا بند کر دیا اور مقامی باشندے خواجہ اویس جیسے لوگوں کی بچت ختم ہو گئی۔
انہوں نے معاہدے کے حوالے سے کہا ’بلاشک یہ ایک خوشخبری ہے، نہ صرف ہمارے جیسے کاروبار کرنے والوں کے لیے بلکہ ان سب کے لیے بھی جنہوں نے شیلنگ کے دوران تباہیوں کا سامنا کیا۔‘