صبا حمید کے خیال میں آج کل کے ڈراموں میں مزاح کی کمی ہے۔ فوٹو: فیس بک صبا حمید
پاکستانی اداکارہ صبا حمید کہتی ہیں کہ ڈرامہ سیریل ’پریم گلی‘ کی سب سے خوبصورت بات اس میں دکھایا جانے والا مزاح ہے۔
صبا حمید آج کل کے ڈراموں میں مزاح کی بہت کمی محسوس کرتی ہیں۔ ان کے خیال میں عام زندگی میں جیسے ہم ہنستے ہیں اسی طرح ڈراموں میں بھی یہ چیز دکھائی جانی چاہیے تاکہ صرف رونا دھونا ہی نہ ہو۔
اردو نیوز کے ساتھ خصوصی گفتگو میں صبا حمید نے کہا کہ ’پریم گلی میں مشکلات دکھائی گئی ہیں۔ عام زندگی کی طرح مسائل بھی دکھائے گئے ہیں لیکن مزاح کا ہلکا پھلکا پہلو کمال ہے جس کی وجہ سے شائقین اس ڈرامے کو پسند کر رہے ہیں۔‘
صبا حمید کے مطابق بعض اوقات ڈرامے میں دکھائی جانے والی باتوں کو ڈرامے کی حد تک ہی رکھنا چاہیے، ڈرامے میں جو بھی دکھایا گیا ہے لیکن وہ ذاتی زندگی میں توہمات پہ بالکل بھی یقین نہیں رکھتیں۔
’ڈراموں کو عام زندگی کی طرح ہی ٹریٹ کیا جانا چاہیے، میری لکھاریوں اور چینل والوں سے گزارش ہے کہ مزاح کی طرف آئیں۔ لوگ مزاح دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔‘
اس سوال پر کہ وہ سنجیدہ یا مزاح سے بھرپور کردار کا انتخاب کریں گی؟ صبا حمید نے کہا کہ ’میں یقیناً مزاح سے بھرپور کردار کروں گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے حساب سے سارے ہی کردار چیلنجنگ ہوتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ پبلک کو وہ کردار سمجھ میں آ جائے جو آپ نے نبھایا ہے، مجھے خوشی ہے کہ شائقین کو میرا پریم گلی میں کردار پسند اور سمجھ آیا ہے۔‘
صبا حمید کے مطابق بعض اوقات فنکار کو کرداروں پر سمجھوتہ بھی کرنا پڑتا ہے۔
’میں نے بھی کرداروں پر سمھجھوتہ کیا بھی ہے۔ میں کوئی بھی پراجیکٹ سائن کرنے سے پہلے یہ دیکھتی ہوں کہ رائٹر، ڈائریکٹر کون ہے، پروڈکشن ہاﺅس کون سا ہے اور کہانی کس طرح سے بتائی جائے گی اور اس کا عوام پر اثر کیسا پڑے گا۔‘
صبا کہتی ہیں کہ ’ہم فنکار لوگ ہیں۔ ہم نے کام تو کرنا ہی ہے گھر تو بیٹھنا نہیں تو بہت ساری چوائسز بھی ہمارے پاس بعض اوقات نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ جس پراجیکٹ کو سائن کیا ہے اس میں اپنے کردار کو ایمانداری سے نبھاﺅں۔ بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ جو پراجیکٹ سائن کیا ہے وہ کچھ خاص نہیں ہے لیکن کرنا پڑتا ہے۔‘
صبا حمید کے مطابق نقالی سے اگر کوئی کام کر بھی لیا جائے تو زیادہ دیر تک کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی اور بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ کہانی بہت اچھی ہوتی ہے لیکن سٹوری ٹیلنگ اچھی نہیں ہوتی یہ چیز دیکھنے والوں کو چینل بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے اور یوں پراجیکٹ ہی فلاپ ہوجاتا ہے۔
’مجھے ایسے لفظوں کے استعمال پر اعتراض ہے جو یہ کہتے ہیں کہ آج کا ڈرامہ تباہ ہو گیا ہے۔ بھئی تباہ نہیں ہوا بس تبدیلی آئی ہے، اتنی بڑی تعداد جب ڈراموں کو دیکھ رہی ہے تو پھر تباہی کیسی؟‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’کچھ لکھاری اچھا لکھ رہے ہیں، کچھ تھوڑا کم اچھا لکھ رہے ہیں۔ کچھ کی سٹوری ٹیلنگ اچھی ہوتی ہے کچھ کی نہیں، بعض اوقات سکرپٹ میں کچھ خرابی ہوتی ہے تو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اگر آج ڈرامہ اچھا نہیں بن رہا تو اس کا ذمہ دار رائٹر ہے اور رائٹر نے ڈرامہ تباہ کر دیا ہے۔‘
صبا حمید کہتی ہیں کہ پوری دنیا میں لاکھوں اربوں روپے کے بجٹ سے ڈرامے اور فلمیں بنتی ہیں، ساری کی ساری اچھی تو نہیں ہوتیں، بہت محنت کے بعد بھی کوئی پراجیکٹ ناکام ہو جاتا ہے۔
اداکارہ کے مطابق ہر چیز کو تباہی کی عینک سے نہیں دیکھنا چاہیے، پی ٹی وی کے زمانے میں بھی رائٹر، ڈائریکٹر، سکرپٹ ڈیپارٹمنٹ ہوتا تھا، ڈرامہ اچھا بن جائے ہر کوئی اپنی جگہ اسی کوشش میں ہوتا تھا اب ذرا سسٹم میں تبدیلی آئی ہے۔
’ڈیپارٹمنٹ بڑے ہو گئے ہیں اور تو کوئی خاص فرق نہیں پڑا، بس عوام کے مزاج کے مطابق ڈرامے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے لہذا اسے تباہی نہ کہا جائے۔‘
ایک سوال کے جواب میں صبا حمید نے پی ٹی وی کے دور کو یاد کیا اور بتایا کہ اُس دور میں ہفتے میں دو دن شوٹنگ ہوتی تھی اور شوٹنگ سے قبل باقاعدہ ریہرسلز ہوا کرتی تھیں، پورا سین ایک ہی وقت میں ریکارڈ کیا جاتا تھا لیکن اب سارا سیریل ایک ہی ساتھ شوٹ ہوتا ہے۔
’چھوٹے چھوٹے سین ایک سنگل کیمرہ سے شوٹ ہوتے ہیں اور کیمرہ کی موومنٹ کے دوران ہی ہم ریہرسل کر لیتے ہیں، اب پانچ پانچ دن بیٹھ کر ریہرسل تو نہیں ہو سکتی، پہلے کی اور اب کی ٹیکنیک بدل چکی ہیں لہذا زمانے اور وقت کے ساتھ چلنا ہی بہتر رہتا ہے۔‘