Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سرکاری نظام کی ڈیجیٹلائزیشن: ہزاروں ملازمتوں کا خاتمہ حتمی مرحلے میں

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سرکاری ملازمین کی کل تعداد 15 سے 16 لاکھ کے درمیان ہے. (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں سرکاری نظام کی ای گورننس پر تشکیل اور اصلاحات کے عمل کے نفاذ کے بعد 117 اداروں کی تحلیل یا ان کو دوسرے اداروں میں ضم کرنے اور 70 ہزار سے زائد اسامیاں ختم کرنے کے لیے سمری وزیراعظم سیکریٹریٹ کو بھجوا دی گئی ہے۔ جس کے بعد ان نوکریوں کے خاتمے کا حتمی اعلان جلد متوقع ہے۔
وفاقی وزارت خزانہ کے اعلیٰ حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’یہ سمری وزیراعظم کے دفتر میں موجود ہے اور کسی بھی وقت اس پر دستخط کیے جا سکتے ہیں۔‘

 

حکام کا کہنا ہے کہ ’اس سمری کی منظوری کے بعد کوئی سرکاری ملازم نوکری سے نکالا تو نہیں جائے گا تاہم 70 ہزار سے زائد سرکاری نوکریاں ختم ہو جائیں گی، جس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ سرکاری محکموں میں بھرتی نہیں ہو سکیں گے۔‘
اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سرکاری ملازمین کی کل تعداد 15 سے 16 لاکھ کے درمیان ہے جس میں 12 فیصد سے زائد آسامیاں خالی ہیں۔
ای آفس یا ای گورننس، جس کے تحت سرکاری دفتروں میں آسامیوں کی تعداد کم ہو رہی ہے، وہ نظام ہے جو جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ اس نظام میں کاغذ کے بجائے کمپیوٹر میں موجود مخصوص سافٹ ویئر کے ذریعے سرکاری اداروں کے درمیان خط و کتابت، فائلوں کی ترسیل و وصولی اور ان کے سٹیٹس کے بارے میں معلومات عوام کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔

 ای گورننس وہ نظام ہے جو جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے تشکیل دیا جاتا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تمام سٹیک ہولڈرز نہ صرف اس سے آگاہ رہتے ہیں بلکہ نوٹیفیکیشن اور ٹائم فریم کا تعین بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے حصے کا کام کر کے سائل کو بروقت آگاہ نہ کرنے والا سب کی نظروں میں بھی آ جاتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ حکومت نے اپنے قیام کے فوراً بعد سرکاری سطح پر ای گورننس کے ساتھ ساتھ مختلف شعبوں میں اصلاحات لانے اور اپنے نصب العین کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے کئی ٹاسک فورسز بھی قائم کیں۔
ان ٹاسک فورسز میں سب سے اہم ٹاسک فورس سابق گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں قائم کی گئی ادارہ جاتی اصلاحات، کفایت شعاری و تنظیم نو ہے۔
اس ٹاسک فورس نے وفاقی اداروں میں اصلاحات کے حوالے سے کئی ایک تجاویز دیں، جن میں کچھ پر عمل درآمد ہوا اور کچھ کو تنقید کے باعث موخر کر دیا گیا۔ جیسے 2019 میں بجٹ سے پہلے پنشن اور دیگر واجبات کی رقم بچانے کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر میں تین سال کی توسیع دینے اور پھر نومبر، دسبر میں ریٹائرمنٹ کی عمر میں کمی جیسی تجاویز دی گئیں۔ لیکن یہ دونوں تجاویز عمل درآمد سے قبل ہی واپس لے لی گئیں۔

ڈاکٹر عشرت حسین کا کہنا ہے اصلاحات کے ذریعے کسی بھی سرکاری ملازم کو نوکری سے نکالا نہیں جا رہا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

گذشتہ ماہ اس ٹاسک فورس نے اپنی ایک رپورٹ وفاقی کابینہ کے سامنے پیش کی ہے۔ کابینہ نے اس رپورٹ میں شامل تجاویز پر عمل درآمد کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس رپورٹ کے تحت فیصلہ کیا گیا ہے کہ ’وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں میں گریڈ ایک تا 16 کی 70 ہزار سے زائد خالی آسامیاں ختم کر دی جائیں گی۔‘
اس کے علاوہ وفاقی حکومت کے 117 ادارے ختم اور ضم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس کے بعد ان اداروں کی تعداد 441 سے کم ہو کر 324 ہو جائے گی۔

وفاقی اداروں کی ہیئت میں تبدیلی

اردو نیوز کو دستیاب ٹاسک فورس برائے ادارہ جاتی اصلاحات، کفایت شعاری و تنظیم نو کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’وزارتوں اور ڈویژنوں میں دو سال سے 70 ہزار آسامیاں خالی ہیں۔‘
 جبکہ وفاقی اداروں کی اقسام 14 سے کم کر کے ایگزیکٹو ڈیپارٹمنٹ، خود مختار اداروں اور قانونی اداروں پر مشتمل تین مختلف کیٹگریز کر دی گئی ہیں۔
ٹاسک فورس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ’رولز اینڈ بزنس میں کمی لانے اور سادہ بنانے کے لئے کام جاری ہے۔‘
رپورٹ کے مطابق ای گورننس کے لیے روڈ میپ کی پہلے ہی منظوری دی جا چکی ہے اور وزارتوں و اداروں کی ویب سائٹس کو تھری جی ورژن میں اپ گریڈ کردیا گیا ہے۔
جبکہ ویب پورٹلز کی تیاری پر کام جاری ہے اور جلد ویب پورٹلز لانچ کر دیئے جائیں گے۔

وزارت خزانہ پہلے ہی سٹیبلشمنٹ ڈویژن کو خالی آسامیوں پر مزید بھرتیاں کرنے سے روک چکی ہے۔ (فوٹو: سٹیبلشمنٹ ڈویژن)

اس حوالے سے اردو نیوز نے  ٹاسک فورس کے سربراہ ڈاکٹر عشرت حسین سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے اصلاحات کے ذریعے کسی بھی سرکاری ملازم کو نوکری سے نکالا نہیں جا رہا۔ جو آسامیاں پہلے ہی خالی ہیں اس کا مطلب ہے کہ ان کے بغیر کام چل سکتا ہے۔ اس لیے ان کو ختم کرکے دفتری امور کو آسان بنایا جا رہا ہے تاکہ کم تعداد میں افراد بھی زیادہ سے زیادہ کام کر سکیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ای گورننس کا نظام بتدریج نافذ ہو رہا ہے اور بہت سے سرکاری اداروں میں فائلوں کا نظام ختم ہو رہا ہے۔ ایسے میں کئی ایک آسامیوں کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس کے باوجود وفاقی سرکاری اداروں میں سالانہ 12 سے 14 ہزار نوکریاں نکلتی ہیں جن سے نوجوان فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘
اس حوالے سے وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ ایک دہائی سے وفاقی حکومت کے ملازمین کی تعداد مسلسل بڑھتی رہی اور اس کی وجہ سے سالانہ تنخواہوں کا بل بھی 3 گنا بڑھ گیا۔ جبکہ پنشن کی ادائیگی کے اخراجات پورے کرنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت کے 95 فیصد ملازمین گریڈ 1 سے 16 تک کے ہیں۔ تنخواہوں کا 85 فیصد حصہ ان ملازمین پر خرچ ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ کا حکومتی پالیسی کے حوالے سے کہنا ہے کہ ’وزیراعظم غیر ضروری اخراجات میں کمی کے خواہاں ہیں۔ ورلڈ بینک بھی سرکاری اداروں میں رائٹ سائزنگ پر زور دے چکا ہے۔‘
وزارت خزانہ پہلے ہی سٹیبلشمنٹ ڈویژن کو کسی بھی وزارت، ڈویژن یا ایگزیکٹو دفتر میں خالی آسامیوں پر مزید بھرتیاں کرنے سے روک چکی ہے۔

وزارت خزانہ کا کہنا ہے ورلڈ بینک بھی سرکاری اداروں میں رائٹ سائزنگ پر زور دے چکا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ڈویژن رؤف چوہدری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’وزارتوں کا کام بنیادی طور پر امور مملکت چلانا ہوتا ہے۔ حکومتیں اپنی سیاسی ساکھ بہتر بنانے کے لیے شہریوں کو ملازمتیں بھی دیتی ہیں۔ شاید اسی وجہ سے ہمارے اداروں میں بھرتیاں بھی ضرورت سے زائد ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے خالی آسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے رؤف چوہدری نے کہا کہ ’یہ فیصلہ کرتے وقت حکومت کو یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا پوری وفاقی سرکاری مشینری میں آٹو میشن کا نظام متعارف ہو چکا ہے؟ کیا ای گورننس پوری حکومتی مشینری کے زیر استعمال آ چکا ہے۔‘
سابق سیکرٹری سٹیبلشمنٹ ڈویژن  نے ای گورننس  کے حوالے سے کہا کہ ’میری اطلاع کے مطابق تو ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ کئی وزارتوں میں ابھی بھی سارا نظام فائلوں کے ذریعے ہی چلایا جا رہا ہے۔ کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے حکومت کو اپنا ہوم ورک یعنی ای گورننس کا نظام مکمل طور پر آپریشنل کر لینا چاہیے۔‘

شیئر: