Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومتی پالیسی سے آٹا بحران کا خدشہ؟

'اس وقت آٹا ملیں صرف اتنی گندم خرید رہی ہیں جتنی روزانہ کی بنیاد پر ملوں کو چلانے کے لیے ضرورت ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں گذشتہ برس کے گندم اور چینی کے بحران کی تحقیقات ابھی جاری ہیں کہ اس سال گندم کی خریداری کے موسم میں حالات کنٹرول میں دکھائی نہیں دیتے۔
صوبہ پنجاب کی لگ بھگ 900 آٹا ملیں حکومتی پالیسیوں کے خلاف تین دن ہڑتال پر رہیں۔
پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے چئیر عاصم رضا نے اردو نیوز کو بتایا کہ حکومت کی گندم خریداری پالیسی نے ایک نیا بحران پیدا کردیا ہے۔ 'اصل میں حکومت نے گندم خریداری کے لیے جو ٹارگٹ سیٹ کیا ہے اس کو حاصل کرنے کے لیے آٹا ملوں کو گندم کی خریداری سے عملی طور پر روک دیا ہے۔ ایک طرف تو محکمہ خوراک گندم خرید رہا ہے دوسری طرف پاسکو۔۔۔ اسی طرح آٹا ملیں بھی گندم کی خریداری کر رہی ہیں۔ جب کہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ ملیں اس وقت تک گندم نہ خریدیں جب تک حکومتی ٹارگٹ مکمل نہیں ہو جاتا۔'
عاصم رضا نے بتایا کہ اس وقت آٹا ملیں صرف اتنی گندم خرید رہی ہیں جتنی روزانہ کی بنیاد پر ملوں کو چلانے کے لیے ضرورت ہے۔ جب کہ حکومت زبردستی ملوں کا کام بند کر رہی ہے۔
'سرگودھا، گجرات سمیت کئی اضلاع میں حکومتی اہلکاروں نے ملوں کے گوداموں سے گندم اٹھائی جس سے ان علاقوں میں ملیں بند ہوئی ہیں جس کے بعد ہم نے فیصلہ کیا کہ اس سے پہلے کہ حکومت ملیں بند کرے ہم نے خود ہڑتال کر دی۔ حکومت نے صورتحال کو سنجیدگی سے نہ لیا گندم بحران ٹھیک کرتے کرتے آٹا بحران پیدا کر لے گی۔‘

'حکومت نے گندم خریداری کے لیے جو ٹارگٹ سیٹ کیا ہے اس کے لیے آٹا ملوں کو گندم کی خریداری سے عملی طور پر روک دیا ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

گندم خریداری مہم میں زبردستی کیوں؟
محمد صابر ایک کسان ہیں اور پنجاب کے علاقے شیخوپورہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی گندم کی فصل اس سال کچھ اچھی نہیں رہی ہے تاہم وہ اس کے مناسب دام نہ ملنے کی وجہ سے خوش نہیں ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے محمد صابر نے بتایا کہ 'پتا نہیں اس دفعہ حکومت کو کیا ہوا ہے گندم کو ضلعے سے باہر بیچنے پر پابندی لگا دی ہے۔ محکمہ خوراک یا پاسکو کو گندم بیچنا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے اس لیے لوگ کھلی مارکیٹ میں گندم بیچتے ہیں اور باہر سے بھی لوگ آ کر خریدتے ہیں جس سے مقابلے میں رجحان بڑھتا ہے۔‘
’اس سال گندم کم ہے اور ریٹ 1700 روپے تک جانا تھا لیکن حکومتی پابندی کی وجہ سے لوکل آڑھتی 1300 روپے میں خرید رہے ہیں حکومت بھی اتنے میں خرید رہی ہے بارشوں کی وجہ سے پہلے ہی ہمارا اتنا نقصان ہوا ہے کہ خرچہ ہی بمشکل نکلے گا۔'

'محکمہ خوراک یا پاسکو کا گندم بیچنا ایک مشکل ترین مرحلہ ہوتا ہے۔' فائل فوٹو: اے ایف پی

پنجاب کے کسان حکومت کی طرف سے گندم کی ضلع بندی جیسے فیصلے سے نالاں نظر آتے ہیں کیونکہ اس سے ان کو مسابقتی ریٹ نہیں مل رہے۔
ایک طرف آٹا ملوں پر سختی دوسری طرف کسانوں کی مرضی کے خلاف گندم خریداری کی پالیسی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت پچھلے سال جیسے گندم بحران سے بچنے کے لیے جارحانہ پالیسی اپنائے ہوئے ہے۔
پنجاب کے سیکرٹری خوراک وقاص محمود کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے کوئی جارحانہ پالیسی اپنائی ہے۔

پنجاب کے سیکرٹری خوراک وقاص محمود کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ حکومت نے کوئی جارحانہ پالیسی اپنائی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

’یہ صحیح ہے کہ حکومت اپنے گندم خریداری کے ٹارگٹ کو ہر صورت پورا کرنا چاہ رہی ہے۔ آٹا ملوں کے ساتھ مذاکرات سے ہڑتال ختم کروا دی گئی ہے، امید ہے کہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا دوبارہ نہیں کرنا پڑے گا۔‘
ان کے مطابق ’جہاں تک کسانوں کا تعلق ہے تو کسی غلط فہمی کا نتیجہ ہو سکتا ہے حکومت صرف گندم کی سمگلنگ روکنے کے لیے اقدامات کرتی ہے اور ہر سال کرتی ہے۔ اگر چیک اینڈ بیلنس نہ رکھا جائے تو یہی گندم افغانستان تک جاتی ہے کسانوں سے سستی خرید کے بیوپاری برآمدی نرخوں پر آگے بیچتے ہیں۔ اس سال گندم کی پیداوار توقع سے تھوڑی کم رہے گی کیونکہ اس دفعہ موسم نے ساتھ نہیں دیا۔ اس وقت کوئی بحرانی کیفیت نہیں ہے۔'

شیئر:

متعلقہ خبریں