سینیٹ کا انتخاب اور پھر سینیٹ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کا چناؤ اختتام پذیر ہوا ہے ۔ حکومتی حمایت یافتہ امیدواروں نے کامیابی تو حاصل کی ہے مگر یہ امر قابل ذکر ہے کہ کامیاب ہونے والے حکومتی پارٹی کے امیدوار نہیں بلکہ حمایت یافتہ ہیں۔
اکثریتی پارٹی ہوتے ہوئے بھی دونوں عہدوں کی قربانی کو کامیابی سے زیادہ مجبوری ہی سمجھا جا رہا ہے۔ آگے بھی حکومت کے لیے مجبوریاں اور امتحان باقی ہیں۔
ان میں سب سے پہلے قانون سازی کا امتحان ہے۔ پچھلے ماہ قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں میں حکومتی اکثریت ڈولتی نظر آئی ہے۔ وزیراعظم کا اعتماد کا ووٹ اور سینیٹ چیئرمین کے انتخاب میں کامیابی ایک طرف اوپن ووٹنگ اور دوسری طرف سات مسترد شدہ اور متنازع ووٹوں کی بدولت ہے۔
مزید پڑھیں
-
ماریہ میمن کا کالم: کیا میڈیا ہی وِلن ہے؟Node ID: 459486
-
ماریہ میمن کا کالم: ہنگامی موڈ آن ہوگیا ہےNode ID: 465071
-
'کریڈٹ لینے کا بھی کوئی موقع ہوتا ہے'Node ID: 505141
گویا قومی اسمبلی کو اوپن ووٹ سے سنبھالنے کے بعد سینیٹ بھی مسترد شدہ ووٹوں سے سنبھلا ہے۔ اب یا تو یہ ووٹ حادثاً یا اتفاقاً مسترد ہوئے ہیں جس صورت میں تو ٹیکنیکلی اپوزیشن کو عددی برتری حاصل ہے جس کے نتیجے میں چیئرمین کی کرسی اور قانون سازی دونوں میں ہی مشکل بدستور رہے گی۔
دوسری صورت (جس کا زیادہ امکان ہے) میں یہ ووٹ باقاعدہ منصوبے کے تحت قصداً غلط ڈالے گئے۔ اس میں بھی حکومت کے لیے ریلیف کم ہی ہے۔ یہی سات لوگ یا دیگر چھوٹی پارٹیاں بدستور کنگ میکر یا بادشاہ گر کا کردار ادا کرتی رہیں گی۔ ہر دو صورتوں میں قانون سازی کے لیے پہلے کی طرح بیرونی سہاروں کی ضرورت بھی بدستور رہے گی۔
دوسرا اہم امتحان سیاسی ہے۔ یہ مقابلہ کھلے عام بھی ہے اور پس پردہ بھی۔ کھلے عام تو حکومت کا پلہ ابھی تک بھاری ہے کہ اپوزیشن بڑا ہجوم اکٹھا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی مگر پس پردہ پی ڈی ایم خصوصاً پی پی پی نئی صف بندیوں کی شنید کے ساتھ متحرک ہے۔ اس کے ساتھ ہی ن لیگ میں اعلیٰ سطح کی گرفتاریوں کی بھی خبریں ہیں۔ کیا یہ گرفتاریاں حکومت کو سیاسی اعتماد اور سہارا دے سکیں گی؟ اور کیا ان کا براہ راست اثر اپوزیشن کے لانگ مارچ پر پڑے گا؟ شاید مستقبل قریب میں کچھ حد تک مگر اپوزیشن کے اب دباؤ کم کرنے کے امکانات کم ہیں۔

سیاسی میدان میں پنجاب کے قلعے پر بھی ہر وقت ہی مہم جوئی کی امکانات رہتے ہیں، ایک دفعہ پھر بزدار سرکار تبدیلی کی افواہوں کی زد میں ہے۔ اتحادیوں خصوصاً ق لیگ کے سیاسی کردار کا بڑھنا پی ٹی آئی کے لیے ایک سیاسی چیلنج ہی ہے جس سے اس کی سیاسی پوزیشن مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہی ہوئی ہے۔
ن لیگ نے البتہ عندیہ دیا ہے کہ وہ اگر کسی اور پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت گرا بھی سکتی ہو تو نہیں گرائی گی اور پنجاب میں بلا شرکت غیرے ہی اقتدار میں آئے گی۔ اس سیاسی اعتماد کا اثر ان دعوؤں میں بھی نظر آرہا ہے جو مریم نواز ن لیگ کے آئندہ ٹکٹ کے بارے میں کر رہی ہیں۔ اس لیے بزدار سرکار جتنی دیر بھی رہے اس کو بونس ہی سمجھا جا رہا ہے۔
