Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

برطانیہ کا نیا امیگریشن پلان: پناہ گزینوں کی مشکلات بڑھنے کا امکان

برطانوی وزیر داخلہ کے مطابق ’ان لوگوں کو نکالا جائے گا جو برطانیہ میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
برطانوی حکومت نے بدھ کو اپنے دہائیوں پرانے پناہ دینے کے نظام میں تبدیلی کرنے کے منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’موجودہ نظام پربہت زیادہ بوجھ ہے۔‘
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانوی وزیر داخلہ پریتی پٹیل کے مطابق ’امیگریشن کے نئے مںصوبے ' کا انحصاراس بات پر ہوگا کہ پناہ گزینوں کی ضرورت کیا ہے نہ کہ اس پر، کہ انسانی سمگلروں کو پیسہ کمانے کا موقع ملے۔‘
دوسری جانب اس فیصلے پر پناہ گزینوں کے گروپوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے۔
وزیر داخلہ اس حوالے سے کہتی ہیں کہ ’اس منصوبے کا مقصد ان لوگوں کی شناخت کرنا ہے جنہیں اصل میں پناہ کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے غیر قانونی طور پر ملک میں آنے والوں کے داخلے کی حوصلہ شکنی کی جائے گی۔ قوانین میں رد و بدل سے ان لوگوں کو بھی ملک سے باہر نکالا جائے گا جو برطانیہ میں رہنے کا حق نہیں رکھتے۔‘
برطانوی نشریاتی چینل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’برطانوی حکومت کئی آپشنز کو سامنے رکھے ہوئے ہے کہ کیسے پناہ کے پورے نظام میں اصلاحات کی جا سکتی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو دنیا کے خطرناک حصوں میں مظالم سے بچنے کے لیے پناہ کی تلاش میں ہیں۔‘
انہوں نے منصوبے کی مزید تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ 'ہمیں لوگوں کی سمگلنگ کا یہ ماڈل توڑنا ہوگا، ہمیں محفوظ اور قانونی اصولوں کو قائم کرنا ہوگا اور حقیقی پناہ گزینوں کی مدد کے قابل بننا ہوگا، تاکہ وہ صرف مظالم سے نہ صرف بچیں بلکہ برطانیہ میں نئی زندگی شروع کر سکیں۔'
ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ 'ہمارے موجودہ نظام پر بہت بوجھ ہے۔'
واضح رہے کہ لوگوں کے پناہ حاصل کرنے کے طریقہ کار کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ وہ قانونی طور پر آ رہے ہیں یا غیر قانونی طور پر۔
پرینی پٹیل کے مطابق ’اگر لوگ غیر قانونی طور پر آ رہے ہیں تو انہیں وہ حقوق نہیں ملیں گے جو قانونی طریقے سے آنے والوں کو ملیں گے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’اس طرح پھر ان کے لیے رکنا مشکل ہو گا۔‘

شیئر: