Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’’وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے‘‘

 سجدہ کی ضد غرور ہے ،جو لوگ سجدے کرتے ہیں وہ زیادہ منکسر المزاج ہوتے ہیں اور جو لوگ تواضع کرتے ہیں اللہ انہیںسربلند کرتا ہے
 
ڈاکٹر محمد لئیق اللہ خان 
 
 اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام الہیٰ سے متاثر اور خشوع و خضوع کی کیفیت سے سرشار اہل ایمان کی تصویر بڑی دلفریب انداز میں بیان کی ہے۔اللہ تعالیٰ بتاتا ہے:اہل ایمان جب کتاب الہیٰ کی عظمت اسکے معنی او رمفاہیم کا مطالعہ کرتے ہیں تو بے اختیار سجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔ 
 
اللہ تعالیٰ کی جانب سے اہل ایمان کی یہ تصویر انسان کو حیرت و استعجاب کی حالت میں ڈال دیتی ہے مگر افسوسناک امر یہ ہے کہ اب ہم ہر روز قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور اسکے معجزات کا مشاہدہ کرتے ہیں اور کلام الہیٰ سے نہ تو متاثر ہوتے ہیں اور نہ اس سے ہم آہنگی کا ا ظہار کرتے ہیں۔ 
 
ذرا سورہ الاسرا ء کی آیات 105تا 109پڑھیں اور پھر انکا ترجمہ دیکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اس قرآن کو ہم نے حق کے ساتھ نازل کیاہے اور حق ہی کے ساتھ یہ نازل ہوا ہے اور اے محمد() تمہیں ہم نے اس کے سوا اور کسی کام کیلئے نہیں بھیجا۔ (جو مان لے اسے ) بشارت دیدو اور (جو نہ مانے اسے) متنبہ کردو اور اس قرآ ن کو ہم نے تھوڑا تھوڑا کرکے نازل کیا تاکہ تم ٹھہر ٹھہر کر لوگوں کو سناؤ او راسے ہم نے (موقع موقع سے ) بتدریج اتارا ہے۔ اے محمد() ان لوگوں سے کہہ دو کہ تم اسے مانو یا نہ مانو جن لوگوں کو اس سے قبل علم دیا گیا ہے انہیں جب یہ سنایا جاتا ہے تووہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں اور پکار اٹھتے ہیں پاک ہے ہمارا رب اس کا وعدہ تو پورا ہونا ہی تھا اور وہ منہ کے بل روتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اسے سن کر ان کا خشوع اور بڑھ جاتا ہے۔
یہاں یہ سوال ہمیں اپنے آپ سے کرنا چاہئے کہ آخر ہمارے دل اللہ تعالیٰ کے کلام سے اب کیوں متاثر نہیں ہوتے؟ 
آخر ہمارے ذہن اللہ کے کلام سے مرتعش کیوں نہیں ہوتے؟
آخر ہم لوگ کلام الٰہی سن کر سجدہ ریز کیوں نہیں ہوتے؟ 
آخر قرآن کریم کی کوئی آیت سن کر اور اس میں مضمر معجزانہ کلمات کا ادراک کرکے اللہ کے آگے کیوں نہیں جھکتے؟۔
 
میرے خیال سے اسکا سادہ سا جواب یہی ہے کہ ہمیں کلام الٰہی کے اسرار و رموز اسکے معانی و مطالب اور اسکے نتائج وآثار کا صحیح معنوں میں ادراک ہی نصیب نہیں۔ 
 
 اسی طرح جو لوگ کلام الٰہی کی اہمیت اور عظمت کا ذوق رکھتے ہوں، وہ اگر انسان کے کلام سے متاثر ہوتے ہیں تو خالق کے کلام سے یقینا اور زیادہ متاثر ہونگے لہذا تاثیر و تاثر کی کلید فہم وادراک اور ذوق و شوق ہے۔اللہ تعالیٰ کے کلام کو سن کر وہی اہل ایمان سجدہ ریز ہوتے ہیں جو سجدے کی اہمیت اور افادیت سے واقف ہوتے ہیں۔
 
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اہل ایمان اللہ تعالیٰ کا مؤثر کلام سن کر سجدے کیوں کرتے ہیں
 اسلئے سجدہ کرتے ہیں کیونکہ 
" نمازی کا براہ راست تعلق رب العالمین سے ہوتا ہے۔ وہ اللہ کے بہت زیادہ قریب ہوجاتا ہے۔"
کیونکہ کائنات کی ہر شے وہ سورج ہو یا چاند، ستارے ہوں یا سیارے، جسم کے خلئے ہوں یا کائنات کے ذرے سب اللہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ 
سورۃ الحج کی آیت نمبر 18میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :کیا تم دیکھتے نہیں ہو کہ اللہ کے آگے وہ سب سربسجود ہیں جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں۔سورج اورچاند اور تارے اور پہاڑ اور درخت وجانور اور بہت سے انسان اور بہت سے وہ لوگ بھی جوعذاب کے مستحق ہوچکے ہیں اور جسے اللہ ذلیل و خوار کردے اسے پھر کوئی عزت دینے والا نہیں۔ اللہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے۔
کیونکہ آپ جتنے سجدے کرتے ہیں اللہ ہر سجدے کے بدلے آپ کا درجہ بلند کردیتا ہے اور ایک درجے کا رقبہ آسمان وزمین کے فاصلے کے برابر ہوتا ہے۔
کیونکہ جب انسان سجدہ کرتاہے تو اسکے دماغ کی شریانوں کی طرف خون کی گردش بڑھ جاتی ہے، جسم کی کسی بھی پوزیشن میں خون دماغ کی طرف زیادہ نہیں جاتا صرف سجدے کی حالت میں دماغ، دماغی اعصاب ، آنکھوں اور سر کے دیگر حصوں کی طرف خون کی گردش متوازن ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں دماغ کے اندر زائد خیال پیدا کرنے والی بجلی براہ راست زمین میں جذب ہوجاتی ہے اور انسان لاشعوری طور پر کشش ثقل سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اس کا براہ راست تعلق کائنات سے پیدا ہوجاتا ہے ۔ سجدہ کی بدولت انسانی دماغ میں موجود زائد بجلی خارج ہوجاتی ہے۔ ترکیز کی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔صبر و سکون کی مشق ہوتی ہے۔ جسم کااعلیٰ خون دماغ میں آجاتا ہے اور دماغ کو تغذیہ فراہم کرتا ہے(جذباتی اور غصیلے لوگ طویل سجدہ نہیں کرپاتے)
 
 اللہ تعالیٰ نے سجدہ کرنے والوں کی تعریف قرآن پاک میں کی ہے۔سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 64کا ترجمہ پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:جو اپنے رب کے حضور سجدے اور قیام میں راتیں گزارتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ رب کے حضور سجدہ کرنے والے اور قیام اللیل کرنے والے لوگوں کا اجر کیا ہوگا۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفرقان کی آیت نمبر 75میں یہ کہہ کر دیا ہے :یہ ہیں وہ لوگ جو اپنے صبر کا پھل منزل بلند کی شکل میں پائیں گے۔ آداب و تسلیمات سے انکا استقبال ہوگا۔
 
یہاں ایک اور پہلو توجہ طلب ہے اورو ہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے رات کے وقت سجدے کی عبادت اور صبر کو ایک دوسرے سے مربوط کرکے بیان کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جو لوگ زیادہ سجدے کرتے ہیں وہ جذباتی کیفیتوں کے اثرات سے بچ جاتے ہیں اورصبر اچھی شکل میں کرپاتے ہیں۔
 
یاد رکھیں ! سجدے سے انکار نے ابلیس کو جنت سے بیدخل کرایا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے سجدے اور تکبر کا تعلق بھی بیان کیا ہے۔ غرور مہلک بیماری ہے۔ ماہرین علم نفس بھی غرور کو ذہنی کشیدگی پیدا کرنے والی نامانوس کیفیت سے تعبیر کرتے ہیں۔ سائنسی جائزوں سے پتہ چلا ہے کہ زیادہ منکسر المزاج اور زیادہ رواداری برتنے والے لوگ زیادہ عمر پاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کے غرور اور آدم کو سجدے سے اس کے انکار کا تذکرہ سورۃ اعراف کی آیت نمبر 11تا 18میں کیا ہے۔ ترجمہ پڑھیں:ہم نے تمہاری تخلیق کی ابتداء کی پھر تمہاری صورت بنائی  پھر فرشتوںسے کہا کہ آدم کو  سجدہ کرو ۔ اس حکم پر سب نے سجدہ کیا مگر ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ ہوا ۔ پوچھا تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے روکا جبکہ میں نے تجھے حکم دیا تھا ؟ بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا اور اسے مٹی سے۔ فرمایا۔ اچھا تو یہاں سے نیچے اتر ، تجھے حق نہیں کہ یہاں بڑائی کا گھمنڈ کرے۔ نکل جا کہ درحقیقت تو ان لوگوں میں سے ہے جو خود اپنی ذلت چاہتے ہیں، بولا  مجھے اس وقت تک مہلت دیدو کہ جب تک یہ سارے لوگ اٹھائے جائیں گے۔ فرمایا تجھے مہلت ہے، بولا اچھا تو جس طرح تو نے مجھے گمراہی میں مبتلا کردیا ہے میں بھی اب تیری سیدھی راہ پر ان انسانوں کی گھات میں لگا رہوں گا۔ آگے اور پیچھے ، دائیں اور بائیں ہر طرف سے ان کو گھیروں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہ پائیگا۔ فرمایا نکل جا یہاں سے، ذلیل اور ٹھکرایا ہوا۔ یقین رکھ کہ ان میںسے جو تیری پیروی کریں گے تجھ سمیت ان سب سے جہنم کو بھر دونگا۔
 
غور کیجئے کہ سجدہ کی ضد غرور ہے لہذا جو لوگ سجدے کرتے ہیں وہ زیادہ منکسر المزاج ہوتے ہیں اور جو لوگ اللہ کی خاطر تواضع کرتے ہیں اللہ انہیںسربلند کرتا ہے۔ عصر حاضر میں اللہ تعالیٰ کی خاطر تواضع کرنے والے بہت کم ہیں۔
 
ایسا لگتا ہے کہ ہد ہد پرندہ بعض انسانوں سے کہیں زیادہ سمجھ دار ہے۔ اسکا پتہ سبا شہر سے واپسی پر ہد ہد اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے اس مکالمے سے ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ النمل کی آیات نمبر 23تا 26میں کیا گیا ہے۔ 
 
 ہد ہد حضرت سلیمان ؑ کے استفسار کے جواب میں کہتا ہے کہ "میں نے وہاں ایک عورت دیکھی ہے، جو اس قوم کی حکمراں ہے، اس کو ہر طرح کا سروسامان بخشا گیا ہے اور اسکا تخت بڑا عظیم الشان ہے میں نے دیکھا کہ وہ اور اسکی قوم اللہ کے بجائے سورج کے آگے سجدہ کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے اعمال انکے لئے خوشنما بنادیئے ہیں اور انہیں شاہراہ سے روک دیا ہے۔ اس وجہ سے وہ سیدھا راستہ نہیں پاتے کہ اس خدا کو سجدہ کریں جو آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزیں نکالتا ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم لوگ چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ جو عرش عظیم کا مالک ہے۔ 
 
حق و سچ یہ ہے کہ جو انسان بھی ہد ہد کی یہ بات سنے گا، اسے یہی احساس ہوگا کہ یہ کسی اللہ والے انسا ن یا کسی نبی یا کسی سمجھدار عالم کا بیان ہے لیکن یہ اس ہد ہد کا بیان ہے جسے انسان ناسمجھ خیال کرتے ہیں۔
 
بعض علماء کا نظریہ ہے کہ خانہ کعبہ کرہ ارض بلکہ پوری کائنات کا مرکز ہے اور اللہ تعالیٰ نے نماز میں خانہ کعبہ کا رخ کرنے کا حکم اسی وجہ سے دیا ہے۔ خانہ کعبہ کے کائنات یا زمین کا مرکز ہونے کی کوئی علمی دلیل تو ہمارے پاس نہیں تاہم اللہ کا گھر ہونے کے ناتے ہمارا خیال ہے کہ خانہ کعبہ کائنات کا مرکز ہوگا۔
 
آخر میں سجدے کی بابت اعداد کا معجزہ ملاحظہ ہو۔
قرآن کریم میں ایک سورت کا نام سجدہ ہے ،یہ قرآن پاک کی 32ویں سورت ہے، عجیب بات ہے کہ قرآن پاک میں لفظ السجود کا ذکر 32بار آیا ہے۔ 
سورۃ السجدہ میں آیت سجدہ آئی ہے ،یہ 15ویں آیت ہے ،اس کا ترجمہ دیکھیں۔  
ہماری آیات پر تو وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جنہیں یہ آیات سنا کر جب نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اسکی تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
اس آیت کا نمبر 15ہے اور سجدوں کی آیات کی تعداد بھی 15ہی ہے البتہ ان آیات کے کلمات کی تعداد 17ہے۔ یومیہ فرض رکعت کی تعداد بھی اتنی ہی ہے۔
 
آیت سجدہ میں لفظ سجدہ سے قبل 8اور اس کے بعد 8کلمات آئے ہیں۔ سجود ان کے وسط میں ہے۔ 
شاید آپ کو یاد ہوگا کہ ایک صحابی نے رسول کریم سے سوال کیا تھا کہ تقرب الی اللہ کا باعث بننے والا سب سے عظیم عمل کیا ہے تب رسول کریم نے انہیں کثرت سے سجدہ کرنے کی نصیحت کی تھی۔
 
اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام قارئین کو قرآنی معجزے کے مشاہدے یا آیات کریمہ پڑھ کر، سن کر سجدہ کرنے کی توفیق عطا کرتا رہے۔
 

شیئر: