سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب یوکرین جنگ پر روس اور امریکہ کے درمیان بات چیت کی میزبانی کر رہا ہے، جس کا مقصد عالمی امن اور سلامتی کی کوششوں کو آگے بڑھانا ہے۔‘
عرب نیوز اور روئٹرز کے مطابق سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی ہدایت پر جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آج سعودی عرب اس اہم موقع کا میزبان ہے جہاں ریاض میں روس اور امریکہ کے حکام کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں اور یہ اقدام مملکت کی جانب سے عالمی امن اور سلامتی کے لیے کی گئی وسیع کوششوں کا حصہ ہے۔‘
اس ملاقات میں روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی شریک ہیں جبکہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اور سعودی وزیر مملکت اور قومی سلامتی کے مشیر مساعد العیبان بھی شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
امریکی، روسی سربراہی اجلاس، آخر ریاض میں کیوں؟Node ID: 886024
-
سعودی ولی عہد نے ریاض میں امریکی وزیر خارجہ کا خیرمقدم کیاNode ID: 886044
-
ریاض کی میزبانی میں امریکی، روسی قربت، یوکرین مرکزی موضوعNode ID: 886062
ریاض میں ہونے والے مذاکرات کو سرد جنگ کے دو حریفوں کے درمیان کافی اہم قرار دیا جا رہا ہے اور امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔
اس ملاقات کو یوکرین جنگ کے خاتمے اور امریکہ و روس کے درمیان تعلقات کی بحالی کی توقع کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
اس بات چیت سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان سربراہی ملاقات کی راہ ہموار ہونے کا امکان ہے۔
یہ موقع پیر کو پیرس میں یورپین رہنماؤں کی اس سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد سامنے آیا جو متفقہ حکمت عملی کے حوالے سے تھا کیونکہ پچھلے ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کے پوتن سے ٹیلی فونک رابطے کے بعد ان پر فوری بات چیت شروع کرنے کے لیے شدید دباؤ ہے۔
یورپی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ دفاع میں مزید پیسہ لگائیں گے اور یوکرین کی سلامتی کی ضمانت میں پیش پیش رہیں گے۔
نیدرلینڈز کے وزیراعظم ڈک سکوف کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو ہنگامی صورت حال کا احساس ہو رہا ہے۔ ’یورپ کے تحفظ کے حوالے سے اس اہم ترین وقت میں ہمیں یوکرین کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یورپ کو کسی بھی معاہدے کے دفاع کے لیے اہم کردار ادا کرنا ہو گا اور اس ضمن میں امریکہ کے ساتھ تعاون بہت ضروری ہے۔
دونوں اطراف کے حکام کا کہنا ہے کہ امریکہ کے وزیر خارجہ مارکو روبیو، وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے مشیر مائیک والٹز اور مشرق وسطیٰ کے نمائندے سٹیو وٹکوف روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف اور پوتن کے خارجہ امور کے مشیر یوری اوشکوف سے ریاض میں ملاقات کریں گے۔
ابتدائی رابطہ
یہ ملاقات ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارت سنبھالنے کے بمشکل ایک مہینے کے بعد ہونے جا رہی ہے جس سے واشنگٹن کی اس پوزیشن میں تبدیلی کی عکاسی ہوتی ہے جو صدر جو بائیڈن کے دور میں تھی، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ وہ عوامی رابطوں اور جنگ کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے۔

روس نے 2014 سے یوکرین کے کچھ حصوں پر قبضہ کیا تھا جبکہ فروری 2022 میں یوکرین پر ایک بڑا حملہ کیا تھا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ یہ جنگ جلد ختم ہو۔
دوسری جانب یوکرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں اس کی جانب سے کوئی ایسا معاہدہ نہیں ہو سکتا جس میں کیئف کو مدعو نہ کیا گیا ہو۔
امریکی حکام منگل کو ہونے والے مذاکرات کو ابتدائی رابطے کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس سے اس بات کا تعین ہو گا کہ آیا ماسکو یوکرین میں جنگ ختم کرنے میں سنجیدہ ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان ٹیمی بروس نے ریاض میں صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’یہ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان ابتدائی بات چیت کا پہلا قدم ہو سکتا ہے اور اگر یہ ممکن ہوا تو باقی کے مفادات کے حوالے سے امور بھی طے ہو سکتے ہیں۔‘
تاہم کریملن کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ بات چیت میں ’امریکہ اور روس کے پیچیدہ تعلقات‘ کا ہر طرح سے احاطہ کیا جائے گا جبکہ اس میں یوکرین کے حوالے سے کسی ممکنہ حل اور دونوں صدور کے درمیان ملاقات کی تیاری بھی شامل ہے۔

روس کا کہنا ہے کہ سرگئی لاوروف اور مارکو روبیو نے سنیچر کو ٹیلی فونک گفتگو میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔
سابق صدر جو بائیڈن اور اتحادیوں نے یوکرین پر حملے کے بعد روس پابندیاں لگا دی تھیں، جس کا مقصد روس کو کریملن کو کمزور کرنا اور جنگی استعداد کو محدود کرنا تھا۔
روس کے ساورن ویلتھ فنڈ کے سربراہ نے ٹرمپ کو ’مسئلے کو حل کروانے والا‘ قرار دیا ہے۔
کیریل دمتروی نے ریاض میں صحافیوں کو بتایا کہ ’ہم ٹرمپ اور ان کی ٹیم کو یقینی طور پر مسئلہ حل کروانے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں بہت سے مسائل کو تیزی اور کامیابی سے حل کرایا ہے۔‘
ریاض جو غزہ کی پٹی کے مستقبل کے حوالے سے واشنگٹن کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے، نے ٹرمپ انتظامیہ اور ماسکو کے درمیان ابتدائی رابطوں کے لیے کردار ادا کیا اور پچھلے ہفتے قیدیوں کے محفوظ تبادلے میں بھی مدد دی۔