’بھوک پیاس اور اذیت کا سفر‘، انسداد انسانی سمگلنگ کے نئے قانون کے تحت پہلا مقدمہ
’بھوک پیاس اور اذیت کا سفر‘، انسداد انسانی سمگلنگ کے نئے قانون کے تحت پہلا مقدمہ
منگل 27 اپریل 2021 9:34
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
محمد قدیر اور ان کے بیٹے آصف کو تقریباً پانچ لاکھ روپے تاوان ادا کرنے کے بعد رہائی ملی۔ (فوٹو: اردو نیوز)
'ہمیں نامعلوم پہاڑی علاقے میں ایک تہہ خانے میں رکھا گیا جہاں اغوا کار ہمارے قمیض اتار کر ننگی پیٹھ پر بجلی کے تاروں سے بے دردی سے مارتے۔وہ مجھے، میرے بیٹے اور ہمارے ساتھ موجود باقی قیدیوں کو روز تشدد کا نشانہ بناتے اور پھر ویڈیوز بنا کر ہمارے گھر والوں کو وٹس اپ کر دیتے۔'
یہ الفاظ ہیں سیالکوٹ کے علاقے پسرور کے رہائشی پچاس سالہ محمد قدیر بھٹی کے، جو گذشتہ ماہ اپنے 20 سالہ بیٹے آصف قدیر کے ہمراہ غربت اور بے روزگاری سے نجات پانے اور بہتر مستقبل کے لیے یورپ کے غیر قانونی سفر پر نکلے تھے مگر یہ سفر ان کی اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی میں بہتری لانے کی بجائے اس وقت مزید مشکلات کا باعث بن گیا جب سرحد پر ایرانی حدود میں انسانی سمگلروں کے ایک گروہ نے انہیں اغوا کر لیا۔
ایک ماہ تک ایران اور ترکی کی سرحد پر قید کاٹنے کے بعد محمد قدیر اور ان کے بیٹے کو تقریباً پانچ لاکھ روپے تاوان ادا کرنے کے بعد رہائی ملی۔
تاوان کی ادائیگی کے لیے محمد قدیر کے اہلخانہ نے در در کی ٹوکریں کھائیں۔ محمد قدیر کے بڑے بیٹے محمد قاسم نے بتایا کہ ہم دو وقت کی روٹی کے لیے پریشان رہتے ہیں اتنی بڑی رقم کا سوچ کر ہی ہمارے اوسان خطا ہو گئے۔'ہم نے رشتہ داروں اور جاننے والوں سے مدد مانگی۔ گھر بھی بیچنے کی کوشش کی لیکن اس کے بدلے بھی کوئی پانچ لاکھ روپے دینے کے لیے تیار نہیں ہوا۔'
محمد قدیر کی بڑی شادی شدہ بیٹی کے پاس کل جمع پونجی ایک سونے کی انگوٹھی تھی اس نے آٹھ ہزار روپے میں بیچ دی مگر دو وقت کی روٹی کو پریشان غریب خاندان کے لیے اتنی بڑی رقم کا بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا۔
محمد قدیر نے بتایا کہ اغوا کار ہمیں روز مارتے، کبھی کبھی تو اتنا مارتے کہ ہمارے سر اور جسم سے خون آنے لگتا۔ وہ تشدد کی ویڈیوز بنا کر رشتہ داروں کے نمبر مانگتے اور انہیں وٹس اپ کر دیتے۔ اغوا کار ہمیں اور گھر والوں کو ڈراتے اور دھماکتے کہ اگر تاوان نہ دیا گیا تو جان سے مار دیں گے۔
محمد قدیر کے مطابق ہم کل نو افراد ان کی قید میں تھے، دو کشمیر اور باقی سب پنجاب کے رہنے والے تھے ۔کچھ کے رشتہ داروں نے فوری رقم کا بندوبست کردیا تھا تو اغو کاروں نے انہیں چھوڑ دیا مگر ہم ایک مہینے تک روزانہ تشدد سہتے رہے۔بالآخر بڑے بھائی نے رقم کا بندوبست کیا اور اغوا کاروں کو مختلف اکاؤنٹس کے ذریعے بجھوائی تو انہوں نے ہم باپ بیٹے کو چھوڑ دیا۔
انسداد انسانی سمگلنگ کے نئے قانون کے تحت پہلا مقدمہ
رہائی ملنے کے بعد محمد قدیر اور ان کے بیٹے نے یورپ جانے کا ارادہ ترک کر لیا اور واپسی پر تفتان سرحد پر پاکستان کے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے حکام نے انھیں گرفتار کر لیا۔
ایف آئی اے نے ان کی کہانی سننے کے بعد انسانی سمگلروں اور ان کے پاکستان میں موجود نیٹ ورک کے خلاف تفتیش شروع کی اور انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے 2018ء میں بنائے گئے نئے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا۔
ایف آئی اے بلوچستان کے ڈائریکٹر عبدالحمید بھٹو کے مطابق یہ بلوچستان ہی نہیں پورے ملک میں پروینشن آف سمگلنگ آف مائیگرنٹس ایکٹ 2018ء کے تحت درج کیا گیا پہلا مقدمہ ہے جس میں انسانی سمگلنگ کے ایجنٹ اور اس کے ایک سہولت کار ملزم کی گرفتاری ہوئی ہے۔
ایف آئی اے بلوچستان کی خصوصی ٹیم نے پہلی بار پنجاب میں جا کر کارروائی کی اور سیالکوٹ سے انسانی سمگلنگ میں ملوث ایجنٹ محمد عارف کو گرفتار کیا۔
اغوا کاروں کو تاوان کی ادائیگی میں سہولت فراہم کرنے والے کوئٹہ کے ایک حوالہ ہنڈی کا کاروبار کرنے والے ایجنٹ محمد کو بھی گرفتار کیا جو پہلے ہی ایف آئی اے کو مطلوب تھا۔ ملزم محمد کے اکاؤنٹ میں تاوان کی رقم میں سے پچاس ہزار روپے بھیجے گئے تھے جو ملزم نے آگے ایران میں موجود انسانی سمگلرز اور اغوا کاروں کو بھیجے۔
ایف آئی اے کے مطابق پاکستانی تارکین وطن کے اغوا کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے بھی تاوان یا پھر بیرون ملک بجھوانے کے لیے طے کی گئی رقم کی عدم ادائیگی کی صورت میں تارکین وطن کے اغوا کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
ڈائریکٹر ایف آئی اے عبدالحمید بھٹو کے بقول 'انسانی سمگلروں اور اغوا کاروں کے ان بین الاقوامی گروہوں کا نہ صرف پاکستان بلکہ کئی دیگر ممالک میں نیٹ ورک موجود ہے ۔ پاکستان بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے انسانی سمگلروں نے پاکستان کے اندر مقامی ایجنٹ رکھے ہوتے ہیں جن کی مدد سے غیر قانونی تارکین وطن کو سبز باغ دکھا کر بھاری رقوم کے عوض غیرروایتی راستوں سے بیرون ملک بجھواتے ہیں۔'
خیال رہے کہ ہر سال ہزاروں پاکستانی بلوچستان کے راستے غیرقانونی طریقے ایران میں داخل ہو کر مغربی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایف آئی اے کے شعبہ انسداد انسانی اسمگلنگ کوئٹہ کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2017ء سے اب تک یعنی گزشتہ پانچ برسوں کے دوران صرف ایران سے 86 ہزار پاکستانیوں کو بے دخل کیا گیا ۔ 2020ء میں 19 ہزار جبکہ 2021ء میں اب تک 3257 افراد کو ڈی پورٹ کیا گیا۔
انسانی سمگلنگ کے دوران راستے میں ویران اور پہاڑی راستوں پر بھوک پیاس اور چوٹ لگنے سے اموات معمول ہیں۔ کئی تو سرحد عبور کرتے ہوئے فائرنگ کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ کسی مرحلے پر مشکلات ختم نہیں ہوتیں۔ غربت، تنگدستی اور بے روزگاری سے تنگ سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنے والوں کے لیے یہ سفر زندگی اور موت کا سفر بن جاتا ہے۔
محمد قدیر کے اس سفر کی وجہ بھی بیشتر غیر قانونی تارکین وطن کی طرح غربت اور بے روزگاری تھی۔ محمد قدیر بھٹی نے دوران تفتیش ایف آئی اے کو بتایا کہ تین سال قبل فٹبال کی فیکٹری میں کام کے دوران آتشزدگی سے محمد قدیربری طرح جھلس گئے تھے جس کے بعد ان کے لیے محنت مزدوری کرنا مشکل ہوگئی۔ وہ کھیتوں میں کم مشقت والا کام کرکے گزارا لیتے تھے مگر پھر ان کی نوعمر بیٹی کینسر کا شکار ہوگئی۔ غربت میں ادھار لے کر علاج معالجے کی تمام کوششوں کے باوجود بیٹی پانچ سال کی عمر میں دم توڑ گئی۔
محمد قدیر کے مطابق پھر اہلیہ بیمار رہنے لگیں ان کے چار آپریشنز کرائے۔ 'تنگ دستی اور فاقوں سے تنگ آ کر ایک دن میں نے بیرون ملک جانے کا سوچا کیونکہ ہمارے علاقے کے کئی لوگوں کی زندگیاں یورپ جانے کے بعد بدل گئی تھیں۔ میں نے ایک لاکھ 80 ہزار روپے سود پر قرض لیا اورسفر پر روانہ ہو گئے۔'
محمد قدیر کے مطابق 'میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس سفر کے بعد زندگی بدلنے کے بعد اور بدتر ہوجائے گی۔ اب ہم اور قرض دار ہوگئے ہیں۔ جتنی رقم ہم نے اپنے سفر اور اغوا کاروں کو تاوان دے کر خرچ کی اتنے میں یہاں کوئی کاروبار کر سکتے تھے۔'
انہوں نے بتایا کہ یہی نہیں بلکہ مسلسل تشدد اور ذہنی اذیت سہنے کے بعد میرے اعصاب بھی متاثر ہوئے ہیں۔ اب مجھے بات سمجھنے میں دقت اور تاخیر ہوتی ہے۔
ڈائریکٹرایف آئی اے عبدالحمید بھٹو نے بتایا کہ اپریل 2018ء میں قومی اسمبلی سے منظور کیے گئے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے پہلے خصوصی قانون میں غیر انسانی سلوک کا شکار ہونے والے ایسے تارکین وطن کو ملزمان کی بجائے متاثرین کی حیثیت دی جاتی ہے اور ان کی قانونی مدد کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پہلے خصوصی قانون نہ ہونے کی وجہ سے انسانی سمگلنگ میں ملوث افراد کو عدالتوں سے چند ہزار روپے اور چند ماہ کی قید دی جاتی تھی لیکن نئے قانون کے تحت کم سے کم سزا تین سال اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہے اور جرم کی سنگین صورت میں 14 سال قید اور 20 لاکھ روپے سے زائد کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بلوچستان میں ایف آئی اے کے انسداد انسانی سمگلنگ شعبہ کے تمام تفتیشی آفیسران کو نئے قانون سے متعلق خصوصی تربیت بھی فراہم کر دی گئی ہے تاکہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کو گرفتار ہونے پر عدالتوں سے سخت سے سخت سزائیں دلائی جا سکیں اور اس جرم کی روک تھام ممکن ہو۔