Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آکسیجن بنانے والی مشینیں کورونا کے مریضوں کے لیے ’زیادہ کارآمد نہیں‘

پاکستان میں کل پانچ ایسی بڑی کمپنیاں ہیں جو آکسیجن کی فراہمی کر رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا میں کورونا کے مریضوں کے لیے آکسیجن کی شدید کمی سامنے آنے کے بعد پاکستان میں تیسری لہر کی شدت کے پیش نظر آکسیجن موضوع بحث ہے۔
کورونا سے نمٹنے کے لیے فعال ادارے این سی او سی نے حال ہی میں آگاہ کیا ہے کہ فی الحال ملک میں آکسیجن کی کمی کا سامنا نہیں ہے۔
البتہ میڈیا پر خبروں کی بہتات اور انڈیا میں جاری آکسیجن کی قلت کی خبروں نے لوگوں میں خاصی تشویش پیدا کر دی ہے اور وہ اپنے طورپر آکسیجن کی ممکنہ کمی کے لیے سدباب کر رہے ہیں۔
آکسیجن کے صنعتی اور ہسپتالوں میں استعمال کے لیے عام طور پر ایک آکسیجن سپلائی لائن پر انحصار کیا جاتا ہے اور پاکستان میں کل پانچ ایسی بڑی کمپنیاں ہیں جو آکسیجن کی فراہمی کر رہی ہیں۔
جبکہ مارکیٹ میں چھوٹے درجے کی ایسی مشینیں بھی موجود ہیں جو ہوا میں سے آکسیجن کو کھینچ کر ایک کمپریسر کے ذریعے چھوٹے ٹینکوں میں بھر سکتی ہیں۔
لوگ اس اس مشین کو بھی خرید رہے ہیں۔ لاہور کے ایک شہری محمد عاصم نے بھی ایک آکسیجن کی مشین خریدی ہے۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا ’میری والدہ کو کورونا ہوا تو اس کے بعد میرے چھوٹے بھائی کو بھی ہو گیا اس وقت جو ہسپتالوں کی حالت ہے اس میں بہتر یہی محسوس کیا کہ ادھر کا رخ نہ کیا جائے۔ میں نے احتیاط کے طور پر دس لیٹر فی منٹ آکسیجن پیدا کرنے والی مشین خریدی ہے کہ ہسپتال جانے سے جتنا بچا جا سکے بچیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’میری والدہ کو اس وقت سات لیٹر فی منٹ آکسیجن کی ضرورت ہے اور اس مشین سے یہ پوری ہو رہی ہے۔ ‘ 
آکسیجن کی دس لیٹر فی منٹ پیدا کرنے والی مشین یا کنسٹریٹر اس وقت مارکیٹ میں تین لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔

ملک میں آکسیجن سلنڈر کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

طبی آلات کا کاروبار کرنے والے لاہور کے ایک تاجر عبدالرؤف پچھلے کافی عرصے سے آکسیجن کنسنٹریٹر بیچ رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’مارکیٹ میں پانچ اور دس لیٹر فی منٹ آکسیجن کشید کرنے والی مشینیں موجود ہیں۔ پچھلے سال تک پاکستان میں آنے والے مشینیں یورپ اور امریکہ سے آتی تھیں۔ لیکن اس وبا کے بعد اب زیادہ مشینیں چین سے آرہی ہیں لیکن ان کی قیمتوں میں خاطر خواہ فرق نہیں پڑا۔‘
عبدالرؤف کے مطابق ’دس لیٹر والی مشین تین لاکھ کی ہے اور پانچ لیٹر والی ایک 20 ہزار سے ڈٰیڑھ لاکھ روپے میں دستیاب ہے۔ آخری بار ان کی قیمتیں اس وقت بڑھیں جب ڈالر کا ریٹ اوپر گیا تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’یہی پانچ لیٹر والا اس وقت ساٹھ سے ستر ہزار میں دستیاب تھا لیکن کورونا کے مریضوں کے لیے ہم نے دیکھا ہے کہ لوگ یہ خرید کے لے کر جا ر ہے ہیں ایک تو قیمت زیادہ ہے دوسرا ڈاکٹر بھی یہ تجویز نہیں کرتے کیونکہ کورونا کے مریض کی ضرورت کافی حد تک اس مشین سے مختلف ہو سکتی ہے۔‘ 
مارکیٹ میں موجود آکسیجن کنسنٹریٹر مشینیں عام طور پر ہائیپوآکسومینیا کے مریضوں کے لیے بنائی جاتی ہیں یہ ایسے مریض ہوتے ہیں جن کے جسم میں آکسیجن کی مسلسل کمی رہتی ہے۔
لاہور جناح ہسپتال کے کورونا وارڈ کی سربراہ ڈاکٹر فہمینہ اشفاق سمجھتی ہیں کہ کورونا کے مریضوں لیے آکسیجن کنسنٹریٹر خریدنا زیادہ کارآمد نہیں ہو گا۔

بڑھتے کیسز کی وجہ س کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد کے لیے حکومت نے فوج بھی طلب کی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ کورونا کے وہ مریض جن میں آکسیجن کی مسلسل کمی ہورہی ہو ان کو بعض اوقات زیادہ آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مشینں دس لیٹر فی منٹ سے زیادہ آکسیجن بنا ہی نہیں سکتیں۔
’ہمارے ہاں ایسے مریض بھی ہیں جن کو 30،30 لیٹر آکسیجن کی بھی ضرورت ہے تو آپ کو یا تو آکسیجن سلنڈر لانا ہو گا یا پھر ہسپتال کا رخ کرنا ہوگا۔ ہاں ابتدائی طور پر جب کم آکسیجن کی ضرورت ہو تب یہ مشینیں کچھ حد تک ضرور مدد کر سکتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ان مشینوں کی سہولت یہ ہوتی ہے کہ صرف پلگ اینڈ پلے سے ہی یہ آکسیجن بنانا شروع کر دیتی ہیں۔ یعنی آپ نے بس سوئچ آن کیا اور بس۔۔ دوسری طرف آکسیجن سلنڈر خریدنا لانا اور پھر ختم ہونے پر دوبارہ وہی مشق دوہرانا زرا مشکل ہوتا ہے۔‘
ڈاکٹر فہمینہ اشفاق نے کہا کہ ’میں پھر بھی یہی کہوں گی کہ مشین کی افادیت کورونا مریضوں کے لیے زیادہ نہیں ہے۔ جیسے ہی 10 لیٹر سے زیادہ کی ضرورت ہو گی تو مشین کا کام ختم ہو جائے گا۔‘

شیئر: