ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
طبیعت کا تضاد بیان کرتا یہ شعر مولانا حسرت موہانی کے مشہور اشعار میں شامل ہے۔ سرِدست اس شعر کے انتخاب کی واحد وجہ اس میں وارد لفظ ’چکی‘ ہے۔
’چکی‘ قدیم زمانے ہی سے ایک کارآمد کل کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے، تاہم نئی ایجادات نے اس کا گھریلو استعمال متروک نہیں تو محدود ضرور کردیا ہے۔
مزید پڑھیں
-
کیا ’غلط ‘ کو ’غلت‘ لکھنا چاہیے؟Node ID: 535316
-
گالوں میں پڑنے والا گڑھا اور چاہِ غب غب کی کہانیNode ID: 548961
-
اُودے اُودے، نیلے نیلے، پیلے پیلے پیراہنNode ID: 552631
-
چلتے ہو تو چمن کو چلیےNode ID: 560736
’چکی‘ عام طور پر تین طرح کی ہوتی ہیں۔ گھریلو استعمال میں آنے والی چکی ہاتھ کی مدد سے چلائی جاتی ہے، اس لیے ’ہتھ چکی‘ کہلاتی ہے، جب کہ اسے پسنہارا، ہتھ چلی اور میچن بھی کہتے ہیں۔ جب کہ پانی اور ہوا کی مدد سے چلنے والی چکیاں بالترتیب ’پَن چکی‘ اور ’پَوَن چکی‘ کہلاتی ہے۔
چکی پتھروں کے دو گول حصوں پر مشتمل ہوتی ہے، نیچلے حصے میں ایک کیل لگی ہوتی جسے اردو میں ’مانی‘ کہتے ہیں، چکی کا نچلا حصہ ساکت رہتا ہے جب کہ اوپری حصہ اس ’مانی‘ کے گرد گھومتا ہے۔
عربی میں چکی کی مانی کو ’قطب‘ کہتے ہیں، چوں کہ یہ ’قطب‘ اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور اس کے گرد چکی گھومتی ہے اس لیے مجازاً ستارہ شمالی (North Star) کو بھی ’قطب‘ کہتے ہیں، کہ قطب تارہ بھی اپنی جگہ قائم رہتا ہے اور باقی ستارے گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس بات کو علامہ اقبال کے شعر سے سمجھیں۔
کہتا تھا قطبِ آسماں قافلہِ نجوم سے
ہمرہو، ميں ترس گيا لطف خرام کے ليے
عربی ہی میں سردار قوم کو بھی ’قطب‘ اسی رعایت سے کہا جاتا ہے کہ سارے معاملات اس کے گرد گھومتے ہیں۔
چکی کو فارسی میں ’آس‘، ’آسک‘ اور ’آسیا‘ کہتے ہیں۔ یہ چکی پانی سے چلے تو ’آسیاب‘ اور ہوا سے چلے تو ’آسیا باد‘ کہلاتی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/May/36511/2021/dr-vafmw4aaxta_.jpg)
فارسی اور اردو شعرا کے ہاں برے حالات یا تقدیر کی نسبت آسمان کی جانب کی جاتی رہی ہے، میرزا غالب نے یوں ہی تو نہیں کہا : ’ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُس کا آسماں کیوں ہو‘
’آسمان‘ سے یاد آیا کہ اردو میں رائج لفظ ’آسمان‘ اور اس کے بیشتر فارسی مترادفات میں ’گردش‘ کا مفہوم پوشیدہ ہے۔ لفظ ’آسمان‘ ہی پر غور کرلیں، یہ دولفظوں سے مرکب ہے، اول ’آس‘ یعنی چکی اور دوم ’مان‘ یعنی مانند، یوں ’آسمان‘ کا لفظی مطلب ہوا ’آس کے مانند‘ یا ’چکی جیسا‘، وجہ یہ کہ پرانے زمانے میں زمین کا ساکن اور آسمان کو متحرک مانتے تھے، اور چکی کا بھی اوپری پاٹ گھومتا اور نچلا پاٹ ساکن رہتا ہے، لہٰذا اس مشابہت یا مماثلت کی وجہ سے ’آسمان‘ نام ہوگیا اب اس بات کو میرزا غالب ایک اور مشہور شعر سے سمجھیں:
رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
اب لفظ ’گردش‘ کو ذہن میں رکھیں اور ’گَردوں‘ پر غور کریں جو فارسی کی رعایت سے اردو میں آسمان کو کہتے ہیں، اس میں بھی ’گھومنے‘ کا تصور موجود ہے۔ ’گردش‘ فارسی مصدر ’گردیدن‘ یعنی گھومنا کا حاصل مصدر ہے۔ آسان لفظوں میں سمجھیں تو جیسے آزمودن (آزمانا) سے آزمائش ہے یا فرمودن (فرمانا) سے فرمائش ہے ایسے ہی گردیدن (گھومنا) سے گردش ہے۔ پھر اسی ’گردیدن‘ سے لفظ ’گردوں‘ ہے جس کے معنی ہیں ’گھومنے والا‘، لفظ ’آسمان‘ کی طرح یہ بھی صفاتی نام ہے۔ اب اس ’گردوں‘ کو ایک مشہورشعر میں ملاحظہ کریں:
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
’آسمان‘ کے بیشتر صفاتی نام اس کے گھومتے رہنے کا اعلان ہیں، انہی ناموں میں سے ایک ’دوّار‘ بھی ہے، جس کے لفظی معنی بہت زیادہ گھومنے والا ہیں، اس کو ’فلک دوّار‘ کی ترکیب میں دیکھ سکتے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/May/36511/2021/pic_c77e4_1493293894.jpg._3)