جمعرات کے روز، تقریباً ڈھائی سال بعد وزیراعظم ہاؤس میں قدم رکھا تو امید تھی کہ تحریک انصاف نے اسے تعلیمی یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کے وعدے کی تکمیل نہ سہی، اس کی جانب کوئی ٹھوس قدم تو اٹھا ہی لیا ہوگا، لیکن وہاں پہنچ کر دیکھا کا ایسا کچھ بھی نہ تھا۔ شاید یہی اس حکومت کے ریفارمز کے وعدوں کی پیش رفت کی ایک علامتی مثال ہے کہ پونے تین سال بعد حکومت کہاں کھڑی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے صحافیوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ پہلی ملاقات میں میرے سمیت پانچ ٹی وی اینکرز مدعو تھے۔ اطلاع ہے کہ آگے مزید لوگوں سے بھی وزیراعظم کی گفتگو کا سلسلہ چلے گا۔ یہ ملاقات کچھ عرصہ پہلے ہونے والی ایک اور بھرپور اور طویل افطار ڈنر/ بیٹھک کے بعد اور بھی اہمیت اختیار کر گئی تھی۔ وزیراعظم نے بھی متوقع سوالات کو بھانپ کر فوراً اس کا حوالہ دیا تاکہ ان کی بے خبری کا تاثر نہ جائے۔ اس کے علاوہ فارن پالیسی، علاقائی معاملات، قومی سیاست، جہانگیر ترین فیکٹر، فائز عیسیٰ کیس اور ٹی ایل پی پر آف دی ریکارڈ اور آن دی ریکارڈ گفتگو ہوئی۔
مزید پڑھیں
-
ترین کے خلاف تحقیقات پر کوئی اثر انداز نہیں ہوسکتا: فواد چوہدریNode ID: 561266
-
کراچی میں بھی شکست، تحریک انصاف کی پے درپے ہار کی وجہ کیا ہے؟Node ID: 562171
وزیراعظم نے دو فوری چیلنجز یعنی جہانگیر ترین اور سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے بیانات پر آن ریکارڈ اور دیگر پر آف ریکارڈ موقف دیا۔ جہانگیر ترین پر وزیراعظم صاف اور واضح طور پر پریشر گروپ یا ترین کے ہم خیال گروپ کے مطالبات کو رد کرتے نظر آئے۔ انہوں نے واضح اعلان کیا کہ نا تو تفتیشی ٹیم میں سے اہم افسر ڈاکٹر رضوان کو نکالا گیا ہے اور نہ ہی مرزا شہزاد اکبر کو اس معاملے سے علیحدہ کیا گیا ہے۔ سینیٹر علی ظفر کی ذمہ داری بھی غیر رسمی اور قانونی سے زیادہ سیاسی ضرورت کے تحت بتائی گئی ہے۔
وزیراعظم کے واضح موقف کے بعد بال اب ترین گروپ کے کورٹ میں ہے۔ ان کو ملاقات تو ملی مگر جس ریلیف کی ان کو توقع تھی اس سے ان کو کورا جواب ہی ملا ہے۔ اب ان کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ کیا وہ اپنے گروپ کی سرگرمیوں کو روزانہ ملاقاتوں اور ترین کی ضمانت کے ساتھ اظہار یکجہتی تک ہی محدود رکھیں گے یا حکومت کو مزید ٹف ٹائم بھی دیں گے؟ اس فیصلے کا وقت اس لیے بھی قریب ہے کہ اگر جہانگیر ترین کی ضمانت مسترد ہوئی اور نوبت گرفتاری تک جا پہنچی تو گروپ کے لیے بھی ادھر یا ادھر کا وقت ہو گا۔
دوسری طرف باوجود اس کے کہ وزیراعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کے لیے ریلیف کے مطالبات یعنی جوڈیشل کمیشن کے قیام کو رد کیا مگر اس کے ساتھ ہی ان تمام باغی ارکان کے خلاف بھی ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی۔ 30 کے قریب ارکان اسمبلی جس میں وزرا بھی شامل ہیں ایک ایسے شخص کے ساتھ کھڑے ہیں جس کے خلاف ان کی اپنی حکومت ہی کیس چلا رہی ہے اور وزیراعظم اس کو مافیا اور کارٹل کہتے نہیں تھکتے۔

وزیراعظم کے قریبی ترجمانوں کو چھوڑ کر سینیئر وزرا اور رہنما بھی ترین کے خلاف بیانات میں دبے دبے اور بجھے بجھے ہیں۔ وزیراعظم کی خود اعتمادی اپنی جگہ مگر بحران کے ابھی بڑھنے کے آثار ہیں اور ہر دو صورتوں میں، چاہے جہانگیر ترین کو ریلیف ملے یا کارروائی جاری رہے، حکومت کے لیے چیلنج برقرار ہے۔
حکومت کا تازہ چیلنج سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن کے انکشافات یا امریکی میڈیا کی اصطلاح کے مطابق میمن گیٹ ہے۔ ان انکشافات کی ٹائمنگ نے معاملے کو مزید حساس بنا دیا ہے کیونکہ حکومت جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں فریق بھی ہے اور اس وقت سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بیک فٹ پر ہے۔
ایسے وقت میں بشیر میمن کے انکشافات سے انتقامی کارروائی کے بیانیے کو جو تقویت ملی حکومت اور خصوصاً اس کی قانونی ٹیم اس سے بچنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم نے بشیر میمن کے انکشافات کی نہ صرف اپنے حوالے سے تردید کی بلکہ ان کو لغو اور بے سروپا بھی قرار دیا۔ ان کے مطابق بشیر میمن نے 'ان کے سامنے آصف زرداری کے کیسز میں بڑھ چڑھ کر اپنی کارکردگی دکھانے کی کوششش کی جبکہ خواجہ آصف کے خلاف ان کا موقف پہلے ہی آن ریکارڈ ہے اور کابینہ میں ڈسکس بھی ہو چکا تھا۔' اپنے وزیر قانون اور دیگر ساتھیوں کے بارے میں انکشافات پر ان کا کہنا تھا کہ 'وہ لوگ خود اپنے بارے میں خبروں کا جواب دے رہے ہیں اور اس سلسلے میں قانونی چارہ جوئی بھی کر رہے ہیں۔'
اس ملاقات میں وزیراعظم کے ریمارکس کے بعد اور ان سطور کے لکھے جانے تک ’میمن گیٹ‘ پر حکومت نے بھرپور رد عمل دیا ہے ۔ بشیر میمن نے خود بھی وضاحت کی کہ 'ان کی وزیر اعظم سے براہ راست اس پر بات نہیں ہوئی جس کو سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر بھرپور اٹھایا جا رہا ہے۔'
