کراچی میں بھی شکست، تحریک انصاف کی پے درپے ہار کی وجہ کیا ہے؟
کراچی میں بھی شکست، تحریک انصاف کی پے درپے ہار کی وجہ کیا ہے؟
جمعہ 30 اپریل 2021 16:37
توصیف رضی ملک -اردو نیوز- کراچی
خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ ’فیصل واوڈا حلقے کے مسائل کو پوری طرح حل نہیں کرسکے‘ (فوٹو: اے ایف پی)
کراچی کے حلقہ NA-249 بلدیہ ٹاؤن میں پیپلز پارٹی کی حیران کن جیت سے زیادہ چرچا تحریک انصاف کی ہار کا ہو رہا ہے۔ پی ٹی آئی اپنی چھوڑی ہوئی نشست پر ضمنی انتخاب میں ایسے چِت ہوئی کہ وکٹری سٹینڈ پر بھی جگہ نہ ملی اور پانچویں نمبر پر آئی۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشست سے ہاتھ دھونا پڑے ہوں۔ ڈسکہ، نوشہرہ، کراچی، گجرانوالہ میں بھی پی ٹی آئی کو ضمنی الیکشن میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ سیاسی مبصرین اسے تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں اور بیڈ گورننس کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
کراچی کے جس حلقے سے 2018 کے عام انتخابات میں وفاقی وزیر فیصل واوڈا نے 35 ہزار کے لگ بھگ ووٹ حاصل کیے تھے، وہیں ضمنی انتخاب میں ان کے جانشین امجد آفریدی کو محض نو ہزار ووٹ ملے۔
تحریک انصاف نے الیکشن کی رات ہی اپنی ہار بھانپتے ہوئے پولنگ نتائج کو مسترد کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ جمعہ کو نیوز کانفرنس کرتے ہوئے خرم شیر زمان نے الیکشن کمیشن کو آڑھے ہاتھوں لیا اور اس پر جانب داری کا الزام عائد کیا۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی اور پارٹی جیت جاتی تو اچنبھے کی بات نہ ہوتی، لیکن پیپلز پارٹی نے تو اتنے برسوں کے دوران علاقے میں کوئی کام تک نہیں کروایا پھر اس کی جیت کیسے ممکن ہوئی؟‘
یہاں خرم شیر زمان نے وضاحت کی کہ ’تحریک انصاف کے پاس چونکہ صوبائی حکومت نہیں تھی اس لیے فیصل واوڈا الیکشن جیتنے کے باوجود بھی حلقے کے مسائل پوری طرح حل نہیں کرسکے، تاہم انہوں نے کوشش ضرور کی اور صوابدیدی فنڈز سے حلقے میں سڑکیں بنوائیں۔‘
بلدیہ ٹاؤن کے مسائل کیا ہیں یہ جاننے کے لیے اردو نیوز نے وہاں کے رہائشیوں سے پوچھا۔ بلدیہ کے علاقے سعیدآباد کے رہائشی اسد فاروق نے بتایا کہ ’اس حلقے کا سب سے بڑا مسئلہ پینے کے پانی کی فراہمی ہے، اتنے برسوں سے سیاسی جماعتوں کے دعوؤں کے باوجود اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آج بھی بلدیہ کے تقریباً تمام گھروں میں واٹر ٹینکر خرید کر پانی کی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بلدیہ ٹاؤن میں سڑکیں برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔ البتہ ضمنی الیکشن سے چند دن قبل حلقے کی مرکزی سڑکوں پر راتوں رات کارپٹنگ کی گئی۔‘
’انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد حلقے میں ترقیاتی کام کروانا اگرچہ ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہوتا ہے تاہم پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی دونوں ہی جماعتیں اس کام کا کریڈٹ لیتی رہی ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ اور بات ہے کہ کچھ سڑکوں میں تو الیکشن کے دن تک دوبارہ ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی تھی، کیونکہ جلد بازی میں اس قدر ناقص معیار کا کام ہوا تھا۔‘
حلقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ’الیکشن جیتنے کے بعد فیصل واوڈا نے مڑ کر بلدیہ کے عوام کی خبر گیری نہیں کی۔‘
علاقہ مکین فیاض الحسن کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کے وزیر اور رہنما الیکشن کے دنوں میں تو بہت دکھائی دیتے ہیں لیکن اس کے بعد عوامی مسائل حل کرنے کوئی نہیں آتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لوگوں نے تبدیلی کے نام پر فیصل واوڈا کو ووٹ دیا تاہم ایک تو انہوں نے حلقے میں کوئی کام نہیں کیا، الٹا حلقے والوں کو چھوڑ کر سینیٹ میں چلے گئے۔
تحریک انصاف کی ضمنی انتخابات میں شکست
یہ پہلا موقع نہیں کہ تحریک انصاف کو ضمنی انتخابات میں اپنی ہی چھوڑی ہوئی نشست سے ہاتھ دھونا پڑے ہوں۔ ڈسکہ ہو یا نوشہرہ، پی ٹی آئی کو ضمنی الیکشن میں اپنی سیٹ کھونا پڑی۔
حالیہ دنوں میں حکومتی جماعت کو اپنے گڑھ نوشہرہ، گجرانوالہ، ڈسکہ، تھرپارکر، اور کراچی کے ضمنی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی مبصرین اسے تحریک انصاف کی ناقص پالیسیوں اور بیڈ گورننس کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ ’حلقے کی سیاست ہمیشہ قومی دھارے کی سیاست سے مختلف ہوتی ہے، خاص طور پر ضمنی الیکشن میں پارٹی کو بہت محنت کرنا پڑتی ہے، لیکن بلدیہ ٹاؤن کے ضمنی انتخاب میں ایسا نظر نہیں آیا کہ پی ٹی آئی نے پولنگ ڈے سے قبل اور اس دن ووٹروں کو متحرک کرنے کے لیے ی خاطر خواہ ورکنگ کی ہو۔‘
ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی اپنی نشستیں ہارنے کی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے مظہر عباس نے کہا کہ ’2018 میں تحریک انصاف نئی تھی، انہیں آزمایا نہیں گیا تھا اور لوگوں کو تبدیلی کی امید تھی یہی وجہ ہے کہ خاصی تعداد میں نیا ووٹر پولنگ کے لیے نکلا تھا۔‘
’تاہم ڈھائی سال بعد اب صورت حال خاصی مختلف ہے، پی ٹی آئی کی کارکردگی بھی کھل کر سامنے آ گئی ہے، یہی وجہ ہے کہ جو نیا ووٹر تھا وہ تو گھر بیٹھا رہا اور ووٹ ڈالنے آیا ہی نہیں۔ جو دوسری پارٹیوں کے ووٹرز نے پی ٹی آئی کو ووٹ ڈالا تھا، وہ اب اپنی اپنی پارٹیوں کو واپس لوٹ چکے۔‘
انہوں نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے پر بھی حیرانی کا اظہار کیا کہ ’اگر رمضان اور ورکنگ ڈے کے بجائے عید کی بعد کسی چھٹی والے دن الیکشن رکھا جاتا تو یقیناً ٹرن آؤٹ اس سے کہیں زیادہ ہوتا۔‘
پولنگ سٹیشن کے نتائج آنے میں تاخیر کے حوالے سے مظہر عباس نے کہا کہ ’یہ یقیناً ایک تشویشناک امر ہے، اور جیسا کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں دیکھا گیا ہے، اس تناظر میں اس معاملے کی تحقیقات کروانے کی ضرورت ہے کہ جس الیکشن میں ٹرن آؤٹ اتنا کم رہا، وہاں نتائج مرتب کرنے میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی؟‘
جمعرات کو الیکشن کے مکمل نتائج آنے سے پہلے ہی پی ٹی آئی کی شکست واضح ہو چکی تھی، تب سے ہی سوشل میڈیا پر لوگ اسے کراچی کے عوام کا پی ٹی آئی سے بدلہ قرار دے رہے ہیں۔
عمران اسرار نے لکھا کہ ’وہ پی ٹی آئی کے سپورٹر ہیں، اور اگر پارٹی کی یہی کارکردگی رہی تو تحریک انصاف اگلے عام انتخابات میں 2018 کے مقابلے میں آدھی سیٹیں بھی جیت جائے تو انہیں حیرت ہوگی۔‘
کراچی کے رہائشی افضال فاروقی کا کہنا تھا کہ ’اقتدار میں آنے کے بعد دو سال سے وزیراعظم عمران خان نے مختلف مواقع پر اربوں روپے کے پیکجز کے اعلانات تو کیے ہیں لیکن کراچی والوں کی صورت حال جوں کی توں ہے۔‘
’ان اعلانات پر کہیں کچھ عمل ہوتا نظر نہیں آیا، ٹرانسپورٹ پانی سڑکوں کے مسائل ویسے ہی ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی کراچی میں قیادت بھی لوگوں سے رابطے میں نہیں رہتی۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’جمعرات کو الیکشن میں متوقع ہار کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما مکمل نتائج آنے سے پہلے ہی کیمپ سے چلے گئے تھے اور الیکشن کیمپ بند کردیا گیا تھا۔‘
گورنر سندھ عمران اسماعیل نے اس حوالے سے کہا کہ ’الیکشن میں کورونا اور رمضان کے سبب ٹرن آؤٹ بہت کم رہا، اس لیے حلقے کے لوگوں کی صحیح نمائندگی نہیں ہوسکی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’تحریک انصاف کا زیادہ مارجن سے ہارنا ضرور لمحہ فکریہ ہے لیکن انہوں نے اس بات کی نفی کی کہ تحریک انصاف کی مقبولیت میں کوئی کمی آئی ہے۔‘
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے امیدوار اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ ’2018 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کو ووٹ دلوائے گئے تھے۔‘
’اس کے برعکس ضمنی انتخاب میں حلقے کے صحیح ووٹرز سامنے آئے ہیں یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف پانچویں نمبر پر رہی ہے۔‘
بلدیہ ٹاؤن میں مختلف قومیتوں کے لوگ آباد ہیں جن میں مہاجر، پٹھان، سرائیکی، پنجابی، سندھی سب ہی شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ کبھی کوئی ایک پارٹی اس حلقے کو اپنا گڑھ نہیں کہہ پائی۔
یہاں سے متعدد بار مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم پہلے بھی جیت چکی ہیں۔ اس بار ایم کیو ایم کا چھٹا نمبر رہا، جبکہ ایم کیو ایم چھوڑ کر پاک سر زمین پارٹی بنانے والے مصطفیٰ کمال ضمنی انتخاب میں چوتھے نمبر پر آئے۔
حلقہ NA-249 میں 3 لاکھ 40 ہزار کے قریب رجسٹرڈ ووٹرز ہیں جن میں سے محض 20 فیصد نے پولنگ میں حصہ لیا، اس کے باوجود نتائج آنے میں بہت تاخیر ہوئی اور کچھ وقت کے لیے تو پولنگ سٹیشن سے نتائج آنے کا عمل معطل بھی رہا۔
سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس معاملے پر تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے تحقیقات کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’کراچی میں ڈسکہ کی تاریخ دہرائی گئی۔‘
پی ٹی آئی کراچی کے سیکرٹری جنرل سعید آفریدی کا کہنا تھا کہ ’یہ الیکشن پہلے سے مینج تھا، اور پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن کے ساتھ مل کر یہ الیکشن مینج کروایا۔‘
صوبائی وزیر تعلیم اور صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے کہا کہ ’این اے 249 میں پیپلز پارٹی کی کامیابی حق و سچ کی کامیابی ہے۔‘
’کراچی کے غیور عوام نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ماضی میں جس طرح سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں یرغمال تھے اب وہ آزاد ہیں۔‘