Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دِل سے دِلی: جشن منانے کی جلدی نہ کریں۔۔۔

بی جے پی نے سیاسی منظر نامے پر آتے ساتھ ہی ہندوستانیوں کے سوچنے کا انداز بدل دیا۔ فوٹو اے ایف پی
جو لوگ کہتے ہیں کہ مذہب اور سیاست کو ملانا اچھا نہیں، نامعلوم وہ کس دنیا میں رہتے ہیں۔ انڈیا میں اگر سیاست سے مذہب کو نکال دیا جائے تو باقی کیا بچے گا؟ رہنماؤں کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جائے گا کہ سٹیج پر تقریر کرنے کھڑے ہوں تو کہیں کیا؟
لیکن ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ 1970 کے عشرے میں، جب کانگریس حکومت میں تھی، اور اندرا گاندھی وزیراعظم تھیں، تو بس ان کا ایک ہی نعرہ تھا: جیون (زندگی) کے بس تین نشان، روٹی کپڑا اور مکان۔
لیکن پھر بی جے پی والے سیاسی منظر نامے پر آئے اور انہوں نے ایک ارب ہندوستانیوں کے سوچنے کا انداز ہی بدل دیا۔
ہندوؤں اور مسلمانوں میں جھگڑے اور اختلافات پہلے بھی ہوتے تھے بلکہ زیادہ تر بڑے ہندو مسلم جھگڑے کانگریس کے دور اقتدار میں ہی ہوئے، لیکن بی جے پی نے ہندوستان کی سیاست میں دو اہم پہلو متعارف کرائے۔
ایک یہ کہ وہ مسلمانوں کے قبضے سے رام جنم بھومی آزاد کرا کر وہاں ایک عالی شان مندر تعمیر کرائیں گے اور دوسرا یہ کہ سابقہ حکومتیں مسلمانوں کی خوشنودی کرتی رہی ہیں، لیکن وہ ہندوؤں کو ان کا حق دلوائیں گے جس سے انہیں محروم رکھا گیا ہے۔
یہ اچھی سیاسی حکمت عملی تھی، بی جے پی ہندو ووٹ کو متحد کرنے میں کامیاب ہو گئی، اقتدار میں آئی اور چھ سال سے کچھ زیادہ حکومت کرنے کے بعد دس سال کے لیے سیاسی منظرنامے سے تقریباً غائب ہوگئی۔
ایسا کیوں ہوا؟
مذہبی نعروں میں کچھ الگ ہی اثر ہوتا ہے، لوگوں نے روٹی کپڑا اور مکان کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا۔ انہیں لگا کہ رام مندر بن جائے گا تو بس سارے مسئلے حل ہو جائیں گے۔
یہ نفرتوں کا دور تھا۔ لیکن اس دور میں نہ مندر بنا اور نہ ہی روٹی کپڑا ملا اس لیے شاید لوگ بدظن ہوگئے، انہیں لگا کہ اس سے تو کانگریس ہی اچھی ہے، اگر کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی تو نقصان بھی نہیں کرتی۔

مغربی بنگال میں ممتا بنرجی جیت کے بعد قومی رہنما کے طور پر ابھر سکتی ہیں۔ فوٹو اے ایف پی

اس سب کے دوران روٹی کپڑا اور مکان کے مسائل باقی رہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں انڈیا نے کافی ترقی کی ہے، شاید اتنی کہ اگر غیر جانبداری کے ساتھ مڑ کر دیکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ملک کا حلیہ ہی بدل گیا ہے۔ لیکن دو تہائی آبادی اب بھی غریب ہے۔ یا بس یوں سمجھ لیجیے کہ امریکہ اور یورپ کی مجموعی آبادی سے زیادہ لوگ بس کسی طرح گزر بسر کر ر ہے ہیں۔
اس لیے سنہ 2004 میں جب بی جے پی ہاری تو لگا کہ بس مندر کا کارڈ اب اور نہیں چلے گا، اب صرف ترقی کی بات ہوگی۔ کانگریس نے دس سال حکومت کی اور پھر نریندر مودی آگئے۔
لیکن جب انہوں نے بی جے پی کی قیادت سنبھالی تو انہوں نے صرف ترقی اور روزگار کی بات کی اور ایک ایسے دور کےخواب دکھائے جہاں سب کے پاس نوکریاں ہوں گی، سب اچھے پکے گھروں میں رہیں گے۔ مطلب وہی خوابوں کا پورا پیکج جو اچھے سیاستدان دکھایا کرتے ہیں۔
پھر اپنے پہلےدور کے بیچ میں ہی انہوں نے دوبارہ ہندوتوا کا دامن تھام لیا، نوکریوں کا ذکر بند ہوگیا اور کبھی شہریت اور کبھی گاؤ کشی جیسے متنازع قوانین حکومت اور عوام دونوں کی توجہ کا محور بن گئے۔
یہ تو ماضی کی بات ہوئی۔ اب رام مندر کی تعمیر زور شور سے جاری ہے۔ کورونا کی وجہ سے معیشت کی حالت خراب ہے لیکن اس کی بنیاد پہلے ہی ہلنا شروع ہوگئی تھی۔ ایسے میں مغربی بنگال میں انتخابات ہوئے۔ وہاں ممتا بنرجی وزیراعلیٰ ہیں، بس سمجھ لیجیے کہ وہ اسی انداز سے سیاست کرتی ہیں جیسے جاوید میانداد بیٹنگ کرتے تھے۔
مغربی بنگال کا الیکشن جیتنے کی کوشش میں وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے معتمد اور وزیر داخلہ امت شاہ نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا۔ انتخابی مہم کے دوران جے شری رام کا نعرہ کچھ ایسے گونج رہا تھا جیسے کبھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ گونجا کرتا تھا۔

1970 کے عشرے میں جب کانگریس کا نعرہ روٹی، کپڑا، مکان تھا۔ فوٹو اے ایف پی

لیکن مغربی بنگال کی عوام نے کہا کہ ساری، ہندو مسلم کی سیاست جہاں چلتی ہو وہاں چلائیں، ہماری دلچسپی روٹی کپڑا اور مکان میں زیادہ ہے۔ ممتا بنرجی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئیں اور اس لیکشن کے نتائج سے انڈیا کی سیاست یا کم سے کم بی جے پی کی سیاست واپس اسی موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں 2004 میں تھی۔
ہو سکتا ہے کہ جے شری رام کا نعرہ اب صرف مذہبی اجتماعات میں سنائی دے جہاں ایسے نعرے اچھے لگتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ بی جے پی کو یہ پیغام ملے کہ مندر مسجد تو سب کو اچھے لگتے ہیں لیکن کچھ غم اور بھی ہیں زمانے میں جن سے دھیان نہیں ہٹتا۔ مثال کے طور پر کورونا وائرس کے اس دور میں زندہ کیسے رہا جائے۔ وائرس کی زد میں آجائیں تو کہاں جائیں؟ ہسپتالوں میں مریض آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں۔
آنے والے چند مہینے انڈیا کی سیاست کے لیے بہت اہم ہیں۔ بہت سے لوگ سوچ رہے ہیں کہ ممتا بنرجی ایک قومی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آسکتی ہیں اور وہ بی جے پی کی اجارہ داری کو چیلنج کر سکتی ہیں۔

سنہ 2004 میں بی جے پی کی ہار کے بعد کانگریس نے دس سال حکومت کی۔ فوٹو اے ایف پی

لیکن ایسا ہونا مشکل ہے کیونکہ ماضی میں اس طرح کے تجربات کامیاب نہیں ہوئے ہیں اور کانگریس، جس کے ارد گرد علاقائی جماعتیں جمع ہوا کرتی تھیں، اب بس ایک دھندلی سے پرچھائی کی طرح سیاسی منظرنامے پر کہیں کہیں نظر آتی ہے۔
لیکن بی جے پی کو یہ پیغام ضرور ملا ہوگا کہ علاقائی رہنما انہیں قومی سطح پر بھلے ہی نقصان نہ پہنچا سکیں لیکن اپنی اپنی ریاستوں میں ضرور روک سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ عوام میں اب یہ تاثر بھی ہے کہ نریندر مودی اور ان کی حکومت مغربی بنگال کو فتح  کرنے میں اتنی مصروف تھی کہ اس نے کورونا وائرس کے خطرے سے نظر اٹھا لی اور اب ہزاروں لوگ روزانہ اپنی جان سے اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ لوگ اگلے الیکشن میں بی جے پی سے حساب مانگیں۔ ویسے ہی جیسے 2014 میں کانگریس سے مانگا تھا۔
ہو سکتا ہے کہ مذہب کے نام پر لڑا جانے والا یہ آخری الیکشن ہو۔ لیکن جشن منانے کی جلدی نہ کریں۔
2004 میں بھی ایسا ہی لگا تھا۔ جیسا میں نے پہلے کہا، مذہبی نعروں میں الگ ہی اثر ہوتا ہے۔

شیئر: