ترین گروپ کے خلاف تحریک انصاف کی قیادت کیا ایکشن لے سکتی ہے؟
ترین گروپ کے خلاف تحریک انصاف کی قیادت کیا ایکشن لے سکتی ہے؟
جمعرات 20 مئی 2021 5:44
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
جہانگیر ترین کے خلاف چینی کی قیمتیں بڑھانے اور منی لانڈرنگ کے مقدمات بنائے گئے ہیں۔ فائل فوٹو: تحریک انصاف فیس بک
پاکستان کی حکمران جماعت تحریک انصاف میں پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کے نام سے باقاعدہ طور پر فارورڈ بلاک بن گیا ہے جس نے قومی اور صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی رہنماوں کا اعلان بھی کر دیا ہے۔
سیاسی مبصرین گروپ کے قیام کو حکمران جماعت کے لیے ایک بڑا سیاسی خطرہ قرار دے رہے ہیں خاص طور پر ایسے وقت میں جب وفاقی بجٹ پیش کرنے کا وقت قریب آ رہا ہے اور حکومت کو قومی اسمبلی میں پہلے ہی اپوزیشن پر بہت معمولی عددی برتری حاصل ہے۔
پارٹی کے وائس چیئرمین اور وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں خبردار کیا ہے کہ پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کی رکنیت متاثر ہو سکتی ہے امید ہے وہ ایسا نہیں کریں گے۔ اعتماد کے ووٹ اور فنانس بل پر کوئی پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔
پی ٹی آئی کے قانونی آپشنز کیا ہیں؟
ایسے میں حکومتی جماعت ایسے باغی ارکان کے خلاف کیا کارروائی کر سکتی ہے تاکہ انہیں مستقبل میں پارٹی کو نقصان پہنچانے سے باز رکھ سکے؟
ماہرین کے مطابق ابھی تک پی ٹی آئی کے پاس ترین گروپ کے خلاف ایکشن لینے کے لیے قانونی آپشنز محدود ہیں۔ تاہم اگر یہ گروپ بجٹ اور دیگر اہم امور پر پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے تو آئین کے آرٹیکل 63 اے تحت ان کی اسمبلی کی رکنیت ختم کی جا سکتی ہے۔
پارلیمانی امور کے ماہر اور قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں سابق ایڈیشنل سیکریٹری طاہر حنفی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ابھی تک اطلاعات کے مطابق جہانگیر ترین گروپ کے نام سے ہم خیال افراد نے ایک پارلیمانی گروہ کا اعلان کیا ہے جس کی قانونی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے کہ قومی اسمبلی میں ایک جماعت کے ارکان لسانی یا علاقائی بنیاد پر ایک گروپ بنا لیں مگر پارٹی نہ چھوڑیں نہ ہی اہم قانون سازی میں پارٹی کے خلاف ووٹ دیں تو ایسا کرنے سے قانونی طور پر انہیں روکا نہیں جا سکتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آگے کی قانونی کارروائی کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کیا گروپ کے نامزد ’پارلیمانی لیڈر‘ سپیکر کے پاس علیحدہ شناخت یا نشتسوں کے لیے کوئی درخواست جمع کرواتے ہیں۔ ایسا کرنے پر درخواست کے متن اور سپیکر قومی یا صوبائی اسمبلی کی رولنگ سے طے ہو گا کہ ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے یا نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں بھی اراکین اپنی پارٹی قیادت کے خلاف انفرادی یا گروہ کی شکل میں اختلاف رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ تاہم ان کے خلاف کارروائی تب تک نہیں ہو سکتی جب تک وہ قانون نہ توڑیں۔‘
انہوں نے یاد دلایا چند دن قبل اسی گروپ کے ارکان وزیراعظم عمران خان سے بھی ملے تھے گویا پارٹی میں ان کی سیاسی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔
طاہر حنفی کے مطابق اگر ایسا فارورڈ بلاک چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون توڑنے کی حد تک نہ جائے مگر پھر بھی پارٹی قیادت کے مفاد کو نقصان پہنچاتا رہے تو پھر سیاسی طور پر پارٹی قیادت کو بھی ایسے باغی اراکین کو سبق سکھانے کے لیے کئی اختیارات حاصل ہوتے ہیں جیسا کہ انہیں وزارتوں سے ہٹانا، انہیں اگر کسی پارلیمانی کمیٹی کی چئیرمین شپ یا کسی وزارت کا پارلیمانی سیکریٹری کا عہدہ ملا ہو تو وہ واپس لینا وغیرہ شامل ہیں۔
آئین اس حوالے سے کیا کہتا ہے؟
پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد منحرف ہونے والے اور پارٹی کے خلاف چلنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کارروائی کا آپشن موجود ہے۔ اس حوالے سے آئین کا آرٹیکل 63 اے واضح ہے کہ اگرایوان میں کسی سیاسی جماعت کا رکن اسمبلی اپنی پارٹی چھوڑتا ہے یا پھراپنی جماعت تبدیل کرتا ہے تو وہ اس کے خلاف پارٹی کا سربراہ رکنیت ختم کرنے کی کارروائی کا آغاز کر سکتا ہے۔
اسی طرح اس آرٹیکل کا اطلاق ان ارکان پر بھی ہوگا جو وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کے انتخابات، تحریک عدم اعتماد یا اعتماد کے ووٹ کے وقت یا بجٹ کی منظوری اور آئینی ترمیم کے وقت پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے۔ ایسی صورت میں پارٹی سربراہ تحریری طور پر اعلان کر سکے گا کہ وہ رکن اس سیاسی جماعت سے منحرف ہو گیا ہے۔ اس اعلان کی نقل متعلقہ رکن کے علاوہ سپیکر اور چیف الیکشن کمیشن کو بھیجی جائے گی۔ پارٹی سربراہ پر لازم ہے کہ اس اعلان سے قبل رکن کو اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرے۔
سپیکر اس اعلان کو دو دن کے اندر چیف الیکشن کمشنر کو بھیجے گا جو تیس دن کے اندر اس پر فیصلہ کرکے رکن کو نااہل قرار دے گا یا اس کے برعکس اپنا فیصلہ جاری کرے گا۔ نااہل رکن 30 دن کے اندر سپریم کورٹ میں اپیل کر سکے گا۔