Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی مصنفہ امیمہ الخمیس کا ایوارڈ یافتہ ناول 'دی بک سمگلر'

تاریخی افسانے پر مصنفہ نے ادب کا نجیب محفوظ ایوارڈ جیتا تھا۔ (فوٹوعرب نیوز)
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کی مصنفہ امیمہ الخمیس کا ناول 'دی بک سمگر' 11 ویں صدی عیسوی میں اسلام کے سنہری دور سے تعلق رکھنے والا ایک غیر معمولی قصہ ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والی سٹوری کے مطابق 2018 میں اپنے اس تحریر کردہ تاریخی افسانے ' دی بک سمگلر' پر  مصنفہ امیمہ الخمیس نے ادب کا نجیب محفوظ ایوارڈ جیتا تھا۔
سارہ عنانی کے نئے انگریزی ترجمے پر مبنی یہ ناول جزیرہ نماعرب کے گاوں حجر الیمامہ سے تعلق رکھنے والے مصنف اور کتاب فروش ماجد النجدی الحنفی کے بارے میں ہے۔

اس میں 11 ویں صدی عیسوی میں اسلام کے سنہری دور کا غیر معمولی قصہ ہے۔(فوٹو ٹوئٹر)

ماجد النجدی دنیا کو دیکھنے کے لئے سفر کرتے ہیں اور وہ اس دوران سیکھنے کے اپنے شوق کی تکمیل کرتے ہیں۔
یہ کہانی ماجد کے گھر چھوڑنے کے تین سال بعد شروع ہوتی ہے۔ جب اسلامی دنیا میں فاطمی، امیہ اور عباسی خاندانوں نیز سیاسی و مذہبی گروہوں کے مابین مستقل طور پر منتقلی کا عمل جاری تھا۔
خانہ جنگی اور تنازعات نے اس پورے خطے کو بغاوت کے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔
اس کہانی میں ماجد کو اندازہ ہوتا ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگ اس کی تعلیم اور دریافت سے پیار کرتے ہیں لیکن کئی ایک اسے توہین اور گستاخی کے مترادف بھی قرار دیتے ہیں۔
وہ المتنبی، ال اصفہانی، ابو حیان، الکندی، ابن ہیثم  یونانی فلاسفر اور دیگرعظیم مفکرین کی کتابیں اور مخطوطات جلائے جانے اور گم ہونے کے خطرات سے دوچار ہیں۔
ماجد کتاب فروش کی حیثیت سے اپنا کریئر ایک خطرناک صورتحال میں ڈال دیتے ہیں۔

امیمہ الخمیس قارئین کو تاریخ کی تلاش سے متعلق ہیروز کا گرویدہ بناتی ہیں۔ (فوٹو ٹوئٹر)

وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں علم کے خزانوں کو بغداد سے بیت المقدس اور قاہرہ سے اندلس منتقل کرنا ہوگا جس سے وہ سائنسی اور فلسفیانہ کاموں کے بارے میں روشنی پھیلا سکیں جس کی وہ حفاظت کر رہے ہیں۔
مصنفہ امیمہ الخمیس نے جس طرح سے اس دور کو اپنی تحریر میں سمویا ہے، وہ لبنانی نژاد فرانسیسی مصنف امین مولوف کی یاد بھی تازہ کرتا ہے۔
اس کہانی میں کی گئی وضاحتیں، حیرت انگیز طور پر تفصیلی تاریخ اور ایک متحرک ہلکا پھلکا اندازہے۔ معمولی وسائل اور خوبصورت دل رکھنے والے انسان ماجد النجدی کے ذریعے امیمہ الخمیس اپنے قارئین کو تاریخ کی تلاش سے متعلق ایک تعریفی کہانی اور اس کے ہیروز کا گرویدہ بناتی ہیں۔
ماجد النجدی جس شہر بھی جاتے ہیں وہاں کی مساجد میں مباحثے کے حلقوں میں بیٹھتے ہیں تاکہ اس دور کے واقعات اور ان کے حامیوں اور مخالفین کے بارے میں جان سکیں۔
جیسے جیسے ماجد کی دنیا میں تبدیلی آنا شروع ہوتی ہے،وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اپنی کئی ایک خواہشوں کو پیچھے چھوڑ رہے ہیں اور ایک ایسا انسان بنتے جا رہے ہیں جسے علم کی خواہش متحرک رکھتی ہے۔
امیمہ الخمیس اپنی عمدہ رفتاراور صبر سے اپنے کلام کے ذریعے ایک ایسی تاریخ کو خراج عقیدت پیش کرتی ہیں جس کی جڑیں بہت گہری ہیں، اس میں تناو ہے اور یہ خوشگوار بھی ہے۔
اس ناول میں مرد و خواتین کا شوق اور ولولہ وقت کے خوف اور ان لوگوں سے کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے جو خیالات اور زندگیوں پر قابو پانا چاہتے ہیں۔
 

شیئر: