پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پی ٹی آئی میں بھی شکست و ریخت کے اشارے اب واضح ہیں۔ (فوٹو: پنجاب سی ایم آفس)
پی ٹی آئی کی پی ڈی ایم کے زوال پر خوشیاں اور اطمینان عارضی ثابت ہوا اور پی ڈی ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد پی ٹی ائی میں بھی شکست و ریخت کے اشارے اب واضح ہیں۔
حکومتی ترجمانوں کی طرف سے اس کو چائے کی پیالی میں طوفان اور پارٹی کی جمہوری روایات کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے مگر اس حقیقت سے کیسے صرف نظر کیا جائے کہ حکومتی وزرا سے ترین گروپ کے باقاعدہ ’مذکرات‘ ہو رہے ہیں جن میں باقاعدہ مطالبات پیش ہو رہے ہیں۔
ان مطالبات کی نوعیت مقامی یعنی ترقیاتی اختیارات اور افسروں کی تعیناتیاں بھی ہیں اور بقول شخصے کچھ وفاقی سطح کے مطالبات بھی زیر بحث ہیں۔
کیا ترین گروپ پی ٹی آئی سے علیحدہ ایک اکائی ہے؟ پہلے دن کے جذباتی بیانات کے بعد اب ان کی ٹون نرم ہے اور عمران خان کی لیڈر شپ کا بھی اعادہ کیا جا رہا ہے۔
بجٹ پاس نہ ہونے کی دھمکیاں اور اسمبلی میں علیحدہ بیٹھنے کے دعوے بھی فی الحال پس پشت ہیں۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس گروپ کا اصل مقصد بجٹ پاس نہ ہونے دینا تھا؟
حالات و واقعات کے تجزیے سے ظاہر ہے کہ وہ دھمکیاں حکومت کو مذکراتی میز پر لانے کے لیے تھیں اور ان کا فوری مقصد پورا ہوا۔ وفاقی وزرا کی ایک پوری کھیپ اس گروپ کو مطمئن کرنے پر تعینات ہو چکی ہے۔ گروپ کے ترجمانوں کی طرف سے وزیر اعظم کی شان میں گستاخیاں بھی فی الحال درگزر ہو چکی ہیں۔
گروپ پھر بھی وزیر اعلی اور دیگر زعما بشمول شاہ محمود قریشی کے بارے میں بغیر لگی لپٹی رکھے لفظوں کی گولہ باری کر رہا ہے اور بجائے ان کے خلاف تادیبی کاروائی کے، ان کی ایک طرح سے خوشامد ہی کی جاری ہے۔
حکومتی وزرا دبے لفظوں میں بجٹ کے بعد ان کے خلاف ایکشن کے اشارے دے رہے ہیں مگر پنجاب میں عددی پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔
وزیر اعظم نے اس سے پیشتر صرف ایک ملاقات پر خیبر پختونخواہ کے وزرا کو فارغ کر دیا تھا مگر یہاں ایک وفاقی اور صوبائی وزیر کُھل کر ’باغیوں‘ کے ساتھ کھڑے ہیں اور کوئی اعتراض بھی سامنے نہیں آ رہا۔ اس سے گروپ کے اثرات اور پوزیشن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
باقی بجٹ کا نہ پاس ہونے کا مطلب ہوتا ہے اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ ہار جانا۔ ایسا اس وقت ہوتا جب پنجاب میں تبدیلی کا حتمی بندوبست ہو جاتا اس میں گروپ کو ن لیگ کی سپورت بھی ہوتی اور فیصلہ سازوں کی بھی۔
ن لیگ کا اس سیاسی سیریل کی تازہ ترین قسط میں کردار مہمان اداکار کا ہے اور یہ کردار انہوں نے قصدا چنا ہے ورنہ اگر وہ ترین گروپ کی طرف ہاتھ بڑھاتے تو پنجاب میں سیاسی ہلچل کئی گنا زیادہ ہوتی۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ ن لیگ کم از کم پنجاب کے سطح پر اب شراکت اقتدار کے موڈ میں نہیں لگ رہی۔
اس پوزیشن پر ن لیگ کے اندر کے دونوں دھڑوں کا بھی اتفاق نظر آتا ہے کیونکہ شہباز شریف باوجود اپنی صلح جوئی کے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے۔
مستقبل میں البتہ اگر نیا سیاسی منظر نامہ اپنی حتمی شکل لیتا ہے تو پھر یہ گروپ اور شہباز گروپ ایک طرف ہو سکتے ہیں مگر اس میں اور بہت سے کھلاڑی بھی اپنا کردار ادا کریں گے۔
نئے سیاسی صف بندی تک یہ بات اب واضح ہے کہ یہ گروپ ایک واضح دراڑ کی نشاندہی کرتا ہے۔ سوال یہ بھی ہے کہ کیا اس دراڑ کی وجہ جہانگیر ترین کے خلاف کیسز ہیں؟
یہ گروپ کچھ نوجوانوں کو چھوڑ کر زیادہ تر منجھے ہوئے روایتی سیاستدانوں پر مشتمل ہے جو تیل اور تیل کی دھار دیکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ یہ گروپ وزیر اعلی عثمان بزدار کے انتخاب اور پھر بدستور ان پر خان صاحب کے اصرار سے بھی متنفر نظر آتا ہے۔ مزید پنجاب میں کسی ایک مرکزی شخصیت کے نہ ہونے سے بھی اس طرح کی گروپ بازی کو تقویت ملی ہے۔
اب جب کہ اس طرح کے گروہ کی بارگیننگ پاور بھی بڑھ چکی ہے تو امکان یہی ہے کہ یہ کسی نا کسی طرح اپنے سیاسی تشخص کو برقرار رکھیں گے چاہے ان کے اہداف مقامی اور کم وقتی ہی ہوں۔
اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی میں دراڑ تو پڑ چکی ہے اور پی ٹی آئی کے پاس اس دراڑ کو عارضی طور پر بھرنے کی علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
کہنے والے تو یہ بھی کہ رہے ہیں کہ دراڑ کسی بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ اگلے کچھ ہفتے اس صورتحال کو واضح کریں گے تب تک پی ٹی آئی کے لیے تشویش کم نہیں بلکہ برقرار ہی رہے گی۔