دس برس قبل لیبیا کے صحرا میں گرفتاری کے بعد سے سیف الاسلام کو عوام نے دیکھا اور نہ ہی سنا ہے۔ اس دوران وہ اپنی موجودگی کی اطلاع یہ کہہ کر کہ وہ خیریت سے ہے ٹیلیفون پر دیتے رہے ہیں۔
سیف الاسلام مغربی سفارتکاروں سے رابطے میں ہیں۔ وہ عوامی زندگی میں واپس آنے اور اپنے پتے سامنے لانے کے لیے رابطے کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سیف الاسلام جنگی جرائم کے ارتکاب کے الزام میں اب بھی بین الاقوامی فوجداری عدالت کو مطلوب ہیں۔
سیف الاسلام کے معاونین نے برطانوی جریدے ٹائمز کو بتایا کہ وہ جلد اس سلسلے میں بیان جاری کریں گے جس میں بتائیں گے کہ وہ چوبیس دسمبر 2021 کو ملک میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی پلاننگ کررہے ہیں۔
معاونین کا کہنا ہے کہ ملک میں انتخابات کے قانون کی توثیق سے قبل اس قسم کا اعلان قبل از وقت ہوگا کیونکہ ردعمل کے طور پر مخالفین انتخابات کے نئے قانون میں کوئی ایسی شق شامل کراسکتے ہیں جس کے ذریعے انہیں امیدوار بننے سے روک دیا جائے۔
سیف الاسلام کو بعض انقلابیوں نے 2011 میں گرفتار کرلیا تھا پھر 2015 میں انہیں سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم دو برس بعد رہا کردیا گیا۔ اس وقت سےوہ الزنتان شہر میں چھپے ہوئے ہیں۔
سیف الاسلام کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کی حکومت کا تختہ الٹنے والے بعض مغربی ممالک سے نالاں ہیں تاہم اب وہ ماضی کے واقعات کو بھلانا چاہتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ روس نے ان کے صدارتی امیدوار بننے کی تائید کی ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ سیف الاسلام کو یقین ہے کہ وہ فوجداری کی بین الاقوامی عدالت کے وارنٹ کے باوجود صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں۔ اصل مسئل یہ نہیں بلکہ اندرون ملک اپوزیشن لیڈر ہیں جو انتخابات کے قانون میں تبدیلی کرکے انہیں صدارتی امیدوار بننے سے روک سکتے ہیں۔
بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ سیف الاسلام کی کامیابی کا امکان ہے۔ لیبیا کے جنوبی اور وسطی علاقے کے عوام ان پر بھروسہ کرسکتے ہیں۔