’ایک دودھ فروش کا بیٹا یونیورسٹی کا ریکٹر بن گیا تو اس کی گردن میں سریا آ گیا‘ آپ نے کالم میں میرے بارے میں یہی لکھا ہے۔
ملک صاحب نے سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ کو بلانے کا مقصد کچھ ادھوری معلومات کو مکمل کرنا ہے۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ دودھ فروش لڑکے اور اس کے والد کے پاس جوتوں کا ایک ہی جوڑا تھا۔ جسے وہ دونوں باری باری استعمال کرتے تھے۔ آپ کے علم میں یہ بھی نہیں ہوگا کہ دودھ فروش لڑکا جب سائیکل پر دودھ فروخت کرنے نکلتا تو جوتے سائیکل کے ہینڈل کے ساتھ لٹکا دیتا تھا۔ وہ گاہکوں کے گھروں میں دودھ پہنچاتے ہوئے بھی جوتے نہیں پہنتا تھا۔ صرف اس لیے کہ اس کے سول زیادہ گھس نہ جائیں۔
مزید پڑھیں
-
وہ قتل جو معمہ بن کر رہ گیاNode ID: 437886
-
آصفہ میں بے نظیر کی جھلک: ’یہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں‘Node ID: 521656
-
ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ یا ’مقدمے کا قتل‘Node ID: 554291