17 جون 1979 کی شام لاہور کا قذافی سٹیڈیم تماشائیوں، روشنیوں اور نعروں سے بھرا ہوا تھا۔ ہیجان سے بھرپور ہجوم کے درمیان دو شہ زور مدمقابل تھے۔ ایک طرف ریسلنگ میں عالمی شہرت رکھنے والا انوکی پہلوان تھا۔ اس کے مدمقابل اپنے وقت میں رستم ہند کا اعزاز رکھنے والے امام بخش پہلوان کا نوعمر پوتا زبیر عرف جھارا تھا۔
مقابلے کے پانچویں راؤنڈ کے اختتام کی گھنٹی بجی۔ شائقین اگلے اور فیصلہ کن راونڈ کے منتظر تھے۔ دونوں اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے تھے کہ چھٹے راؤنڈ کا آغاز ہو۔
جھارا ہشاش بشاش اچھل کر کھڑا تھا۔ انوکی تھکے تھکے قدموں سے چلتا ہوا حریف کے قریب آیا۔ اس کے منہ سے I am Finished کے الفاظ نکلے۔ ساتھ ہی جھارا کا ہاتھ پکڑ کر فضا میں بلند کر دیا۔ جو کام ریفری کو کرنا چاہیے تھا وہ انوکی پہلوان نے کر دیا۔
بظاہر یہ فتح کے اعلان کا اشارہ تھا۔ شائقین نے اسے زبیر کی جیت کا اعلان سمجھ کر نعروں اور بھنگڑوں سے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
جب جشن اور مسرت کا طوفان ذرا تھما تو منتظمین اور مدمقابل پہلوانوں کے قریبی حلقوں میں مقابلے کے برابر ہونے کی افواہیں اور سرگوشیاں گردش کرنے لگیں۔
مزید پڑھیں
-
گاما پہلوان: مشرق کے ہرکولیسNode ID: 420851
-
زبیر سے جھارا پہلوان تک کا سفرNode ID: 432791
-
دنگل جس کا دو دہائی انتظار کیاNode ID: 474121