Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بجٹ سے قبل بلوچستان اسمبلی کے باہر اپوزیشن اراکین، پولیس میں تصادم

کوئٹہ میں بجٹ اجلاس کے موقع پر حزب اختلاف کی جماعتوں اور پولیس کے درمیان تصادم کے باعث بلوچستان اسمبلی کا احاطہ میدان جنگ بن گیا۔ بلوچستان اسمبلی کے باہر جمعے کو پتھراؤ اور ہنگامہ آرائی کے دوران متعدد افراد زخمی ہوگئے۔
پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور حکومتی ارکان کو اسمبلی میں داخل کرانے کے لیے اسمبلی کے عقبی گیٹ کو بکتربند گاڑی کی مدد سے توڑ دیا۔
جمعیت علماء اسلام، بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مشتمل متحدہ حزب اختلاف بجٹ میں نظر انداز کیے جانے کے خلاف گذشتہ تین دنوں سے اسمبلی کی عمارت کے باہر دھرنا دے کر بیٹھی ہوئی تھی۔ اپوزیشن اراکین نے اعلان کیا تھا کہ بلوچستان حکومت کو بجٹ پیش کرنے نہیں دیا جائے گا۔
پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لیے اسمبلی کی طرف جانے والے تمام راستوں کو کنٹینر اور رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا تھا جبکہ عمارت کے باہر اور اندر دو ہزار سے زائد اہلکاروں کو تعینات کیا گیا تھا۔
پولیس کی بھاری نفری کے باوجود اپوزیشن ارکان اپنی جماعتوں کے سینکڑوں کارکنوں کے ہمراہ زبردستی اسمبلی کی عمارت کے احاطے میں داخل ہوگئے اس دوران پولیس اور ارکان اسمبلی کے درمیان تلخ کلامی اور دھکم پیل بھی ہوئی۔ 

حزب اختلاف کی جماعتوں اور پولیس کے درمیان تصادم میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

عمارت کے اندر داخل ہونے کے بعد مظاہرین نے وزیراعلیٰ، وزرا اور حکومتی ارکان کو بجٹ اجلاس میں شرکت سے روکنے کے لیے اسمبلی کے دروازوں کو تالے لگا دیے۔
پولیس جب دروازوں کو کھولنے میں ناکام ہوئی تو اسمبلی کے عقبی گیٹ کو بکتر بند گاڑی کی مدد سے توڑ دیا اور اس کے بعد سینکڑوں پولیس اہلکاروں کے حصار میں وزیراعلیٰ جام کمال اور حکومتی ارکان اسمبلی میں داخل ہوئے۔ اس دوران مظاہرین نے وزیراعلیٰ کی جانب جوتے بھی پھینکے۔
حزب اختلاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے دو ارکان بابو رحیم اور عبدالواحد صدیقی پولیس کے بکتر بند گاڑی چڑھانے کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں۔
دریں اثنا صوبائی وزیر خزانہ ظہور بلیدی بلوچستان اسمبلی میں بجٹ پیش کر رہے ہیں۔
پولیس کے ساتھ  تصادم کے حوالے سے حزب اختلاف کے لیڈر ملک سکندر ایڈوکیٹ کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے بکتر بند گاڑی سے اسمبلی گیٹ توڑا گیا، سرکاری املاک کونقصان پہنچایا گیا اور اراکین کو زخمی کیا گیا۔‘
’حکومت نے اتنا ظلم کیا جس کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک انصاف نہیں ملتا احتجاج جاری رہے گا۔‘
ملک سکندر ایڈوکیٹ کا مزید کہنا تھا کہ ’جٹ چور دروازے سے آکر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعلیٰ اجلاس کے بعد اپوزیشن کا قہر و غضب دیکھیں گے۔‘
خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی کی حزب اختلاف کی جماعتوں کا مؤقف ہے کہ گذشتہ تین سالوں سے ان کے حلقوں کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز نہیں دیے جا رہے۔ فنڈز صرف حکومتی ارکان کے حلقوں میں خرچ کیے جا رہے ہیں۔

شیئر: