Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گیس کا بحران ملک میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا پیش خیمہ؟

پی ایس او اور پی پی ایل گیس منگوانے کے ذمہ دار ادارے ہیں (فائل فوٹو: پی پی ایل)
پاکستان کے صوبہ سندھ میں گیس کا بحران شدت اختیار کر گیا ہے جس کے بعد ملک کے بڑے صنعتی شہر کراچی میں برآمدی صنعت کے علاوہ سی این جی سمیت تمام صنعتوں کو گیس کی فراہم بند کر دی گئی ہے۔
دوسری جانب وزارت توانائی نے وزارت پٹرولیم کو گیس کی قلت کے باعث پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی رکنے کے ممکنہ خدشے کے باعث خط لکھ دیا ہے۔ جس میں ملک میں بجلی کی لوڈشیڈنگ میں اضافے کے خدشے اور متبادل ذرائع کے ذریعے بجلی کی پیداوار سے متعلق اقدامات اٹھانے کا کہا گیا ہے۔
ترجمان سوئی سدرن گیس کمپنی (ایس ایس جی سی) نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ’ایک بڑی گیس فیلڈ کنڑ پساکھی ڈیپ گیس فیلڈ سالانہ مرمت کے لیے21 دن کے لیے بند ہے۔ کمپنی کو اس وقت گیس کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ گیس فیلڈ سے تقریباً 200 سے 250 ایم ایم سی ایف ڈی کم مل رہی ہے۔‘
کمپنی کے مطابق ’گیس کم موصول ہونے کے باوجود ہرممکن کوشش کی جا رہی ہے کہ صارفین کو کم سے کم تکلیف دی جائے اور جہاں جہاں گیس پہنچاٸی جا سکتی ہے وہاں گیس کی ترسیل ممکن بناٸی جا سکے۔‘
ترجمان ایس ایس جی سی نے تسلیم کیا کہ ’تمام اسٹیک ہولڈرز کو گیس پہنچانا سوٸی سدرن کی ذمہ داری ہے مگر اس گیس کی قلت کی سبب گھریلو صارفین کو گیس پہچانے میں انتہاٸی دشواری کا سامنا ہے۔‘
سرکاری گیس کمپنی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی جانب سے وضع کردہ گیس لوڈ مینیجمنٹ سپلاٸی پالیسی کے تحت گھریلو صارفین کو گیس پہنچانا اولین ترجیح ہے۔ گھریلو صارفین کو گیس پہنچانے کی غرض سے غیر برآمدی صنعت کو 100 فیصد گیس کی ترسیل ختم کردی ہے جب کہ کیپٹو پاور کی گیس سپلائی میں بھی 50 فیصد کمی کی گٸی ہے۔ اس سلسلے میں تمام اسٹیک ہولڈر کو پیشگی اطلاع بھی دے دی گٸی ہے۔‘

اندرون ملک سے حاصل ہونے والی گیس کے علاوہ پاکستان اپنی ضرورت کے لیے گیس درآمد بھی کرتا ہے (فائل فوٹو: پی پی ایل)

اس صورت حال سے آگاہ کرنے کے لیے سوئی سدرن کمپنی نے متعلقہ صنعتی شراکت داروں کو خط کے ذریعے آگاہ کرتے ہوئے ان سے تعاون مانگا ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو میں آل پاکستان سی این جی ایسوسی ایشن کے مرکزی صدر غیاث پراچہ نے کہا کہ ’فی الحال تو سندھ میں سی این جی سمیت تمام ایسی صنعتوں کو گیس کی فراہمی روک دی گئی جو برآمدی اشیا کی پیداوار نہیں کرتیں۔ ہمارا موقف ہے کہ پی ایس او اور اور پی پی ایل، جو گیس منگوانے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ ہمیشہ دسمبر، جنوری یا جون، جولائی آتا ہے تو گیس منگواتے ہیں۔ یہ کام، ستمبر اکتوبر یا مارچ، اپریل میں کیوں نہیں کیا جاتا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب انہوں نے ایل این جی کے تین کارگو نہیں منگوائے جس وجہ سے قلت پیدا ہوئی ہے۔ حکومت نے اجازت دی ہے کہ ہر سیکٹر اپنی گیس خود منگوائے، لیکن گیس کمپنیاں اس فیصلے کے خلاف ہو گئی ہیں۔ اگر ہر سیکٹر اپنی گیس منگوائے گا تو وہ گیس کی قیمت اور سپلائی کا ذمہ دار ہو گا اور حکومت کی بھی جان چھوٹ جائے گی۔ اب غلطی ان کی ہے اور سی این جی اور صنعتیں ہماری بند ہو گئی ہیں۔‘

ایس ایس جی سی اور ایس این جی پی ایل ملک میں فیس فراہمی کے ذمہ دار ادارے ہیں (فائل فوٹو: پی پی ایل)

دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی روکے جانے کے حوالے سے پاور ڈویژن نے وزارت پٹرولیم کو خط لکھ کر اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر پاور پلانٹس کو گیس سپلائی معطل ہوئی تو ملک میں لوڈ شیڈنگ بڑھ سکتی ہے۔
توانائی کے شعبہ کے ماہر اختر علی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’مسائل تو ہیں آپ اس کو بد انتظامی کہیں یا بچت کہہ لیں۔ ٹرمینل بھی کم ہیں نیا کوئی ٹرمینل تو لگا نہیں ہے۔ ایک دو گیس فیلڈ خراب ہیں یا کام نہیں کر رہے۔
’ابھی ایک اینگرو کا ٹرمینل ہے جس کے پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں اس نے مرمت وغیرہ کے لیے جانا ہے۔ یہ ایک اور مسئلہ بنے گا۔ یہ ایک مشکل وقت ہے۔‘
پاور ڈویژن کے ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس وقت گیس کی قلت نہیں بلکہ ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔ ایک ٹرمینل جس نے گزشتہ سال سالانہ مرمت اور انشورنس وغیرہ کے معاملات کے لیے واپس جانا تھا جو اس کے معاہدے کا حصہ ہے اس نے سات دنوں کے لیے جانا ہے۔ جس کا فیصلہ کابینہ کی توانائی کمیٹی نے کرنا ہے۔ کابینہ کمیٹی فیصلہ کرے گی تو متبادل حل پر کام کریں گے۔‘

گیس کی قلت پر قابو پانے کے لیے اندرون ملک پیداوار مہیا کرنے والی صنعتوں کو فراہمی معطل کر دی گئی ہے (فائل فوٹو: پی پی ایل)

انہوں نے کہا کہ ’وزارتوں کا کام ایک دوسرے کو کسی بھی متوقع صورت حال کے لیے تیار رہنے کے لیے آگاہ کرنا ہوتا ہے کیونکہ کچھ وزارتوں کا کام ایک دوسرے کے فیصلوں سے جڑا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے پاور ڈویژن نے پٹرولیم کو خط لکھ کر آگاہ کیا۔‘
ترجمان کے مطابق ’اگر پاور پلانٹس کو گیس کی فراہمی متاثر ہوگی بھی تو 700 ایم ایم سی ایف ڈی کے کے بجائے 450 ایم ایم سی ایف ڈی تو ملتی رہے گی۔ ہائیڈل، کوئلہ، فرنس، سولر اور ونڈ انرجی سمیت تمام آپشنز کو ملا کر عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرنے کی کوشش کریں گے۔‘

شیئر: