Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں ’انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں‘ پر ایچ آر سی پی کو تشویش

ایچ آر سی پی کے پاس اب تک لگ بھگ 1300 افراد کی گمشدگی براہ راست رپورٹ ہوئی۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق نے اپنی سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ 2020 میں بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے۔
سیاسی اختلاف رائے رکھنے والے افراد اور صحافیوں کا قتل کیا گیا جو بلوچ آوازوں کے غیر محفوظ ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئلہ کان کنوں کی سب سے زیادہ اموات بلوچستان میں رپورٹ ہوئیں لیکن اس کے باوجود حکومت حفاظتی انتظامات اور قوانین پر عملدرآمد کو یقینی نہیں بنا رہی۔
کمیشن کی بلوچستان شاخ کے سربراہ حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کوئٹہ پریس کلب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندوں کو رپورٹ کے خدوخال بتائے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2020 میں انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق سالانہ رپورٹ میں مشاہدہ کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ایچ آر سی پی نے 2020 میں جبری گمشدگی کے 24 واقعات قلمبند کیے۔
انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال رہا ہونے والے لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ مجموعی طور پر 124 لاپتہ افراد کو رہا کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ لاپتہ افراد کی صحیح تعداد معلوم کرنا آسان نہیں۔
ایچ آر سی پی کے پاس اب تک لگ بھگ 1300 افراد کی گمشدگی براہ راست رپورٹ ہوئی۔ 2020 میں 20 لاپتہ افراد کے لواحقین نے براہ راست رجوع کیا۔
حبیب طاہر کہنا تھا کہ یہ اعداد و شمار مسئلے کی سنگینی کی درست عکاسی نہیں کرتے۔ واقعات کی کم تعداد کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ متاثرین کے خاندان دھمکیوں کے باعث ایسے واقعات کی اطلاع دینے سے ہچکچکاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تربت میں ایف سی اہلکار کے ہاتھوں طالب علم حیات بلوچ کا ماورائے عدالت قتل ہوا جبکہ مبینہ طور پر ایک مقامی ڈیٹھ سکواڈ سے تعلق رکھنے والے افراد کے ہاتھوں ملک ناز نامی خاتون کا اس کی چار سالہ بیٹی کے سامنے قتل کیا گیا۔ ان واقعات کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج بھی ہوا۔

سال کے شروع میں ہی ہزارہ برادری کے کوئلہ کان کنوں کو قتل کیا گیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انسانی حقوق کے کارکن کا کہنا تھا کہ سیاسی اختلاف رائے رکھنے والی کریمہ بلوچ کی کینیڈا اور ساجد حسین کی سویڈن میں اموات، دو بلوچ صحافیوں شاہینہ شاہین اور انور جان کھیتران کا قتل بھی بلوچ آوازوں کے غیر محفوظ ہونے کی عکاسی کرتا ہے۔
انور جان کھیتران کے قتل کی وجہ ان کی رپورٹنگ بتائی جاتی ہے، جس کے باعث علاقے کے قبائلی سردار ان سے نالاں تھے۔
رپورٹ میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹیڈیز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ملک کے باقی حصوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ جبکہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کمی ہوئی۔
حبیب طاہر ایڈووکیٹ کے مطابق 2020 میں بلوچستان میں 73 افراد ٹارگٹ کلنگ اور تشدد کے واقعات میں مارے گئے یا ان کی لاشیں ملیں۔
بم دھماکوں میں مرنے والوں اور مختلف عناصر کے حملوں میں مارے گئے سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 28 واقعات میں سکیورٹی فورسز کے 52 اہلکار اپنی جانیں کھو بیٹھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2021 کی صورتحال تشویشناک ہے۔
سال کے شروع میں ہی ہزارہ برادری کے کوئلہ ناکنوں کو قتل کیا گیا۔ حالیہ دنوں میں فورسز پر حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

کمیشن کا کہنا ہے ملک میں کوئلہ کان کنوں کی سب سے زیادہ اموات بلوچستان میں رپورٹ ہوئیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انسانی حقوق کمیشن نے رپورٹ میں ساحلی شہر گوادر میں باڑ لگانے کے منصوبے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت کے منصوبے نے شہریوں کو خدشات میں مبتلا کردیا کہ ان کی نقل و حرکت کی آزادی محدود ہوجائے گی۔
انسانی حقوق کمیشن کے صوبائی سربراہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں ہندو اور مسیحی اقلیتی برادری عدم تحفظ اور خوف کے ماحول میں رہ رہی ہیں۔ اس صورتحال کے باعث کافی سارے لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔
ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2020 میں کورونا وبا کے تناظر میں صحت عامہ شدید اضطراب کا باعث رہی۔
بلوچستان حکومت کی ایران سے آنے والے زائرین کو قرنطینہ کروانے میں ناکامی کو وبا کے ابتدائی پھیلاؤ کی وجہ قرار دیا گیا۔
حبیب طاہر ایڈووکیٹ کے مطابق لاک ڈاؤن کی وجہ سے سکولوں اور کالجوں کی بندش کے باعث بلوچستان کے تعلیمی اشاریے مزید گر گئے۔
تعلیمی اداروں کی بندش اور آن لائن کلاسسز میں سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کے ان ہزاروں طلبہ کو اٹھانا پڑا کیونکہ انہیں یا تو بہتر انٹرنیٹ سروسز تک کی کمی تھی یا پھر قومی سلامتی کے نام پر بالکل بھی رسائی نہیں تھی۔

ایک اندازے کے مطابق 2020 میں ملک بھر میں 134 کان کن اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

ان کے بقول حکومت نے انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ شورش اور فرقہ وارانہ تشدد کے خطرے کو قرار دیا۔
ایسی صورتحال میں طلبہ کو اپنی پڑھائی جاری رکھنے کے لیے بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ سکول نہ جانے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق 2020 میں ملک بھر میں 134 کان کن اپنی زندگیوں سے محروم ہوئے۔
حبیب طاہر ایڈووکیٹ کے مطابق ان میں زیادہ تر اموات بلوچستان میں ہوئیں کیونکہ یہاں کوئلہ کے کان کی مالکان کی جانب سے مزدوروں کے تحفظ کے لیے انتظامات کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
ان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں کان کنوں کے ہونے کے باوجود پاکستان نے ابھی تک آئی ایل او کنونشن 176 کی توثیق نہیں کی جو کان کنوں کی حفاظت کے لیے گہرائی کی حد تک کا تعین کرتا ہے۔

بم دھماکوں میں بھی کئی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

حبیب طاہر ایڈووکیٹ کے بقول انسانی سمگلنگ بلوچستان کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ 2020 میں پانچ ہزار 599 افراد انسانی سمگلنگ میں پکڑے گئے۔ ان میں بڑی تعداد پنجاب کے مزدور پیشہ افراد کی تھی جو روزگار کے بہتر مواقع کے لیے بیرون ملک جانے کی کوشش کے دوران گرفتار ہوئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی حقوق کمیشن کو اس بات پر تشویش ہے کہ بلوچستان میں ایک طول عرصے سے بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے باعث صوبہ ایک فعال مقامی حکومت سے محروم رہا۔
انہوں نے کہ 2020 میں بلوچستان میں خواتین کے خلاف تشدد کے 22 واقعات رپورٹ ہوئے جس میں مجموعی طور پر متاثرین کی تعداد 27 تھی۔ بچوں کو ہراساں کرنے کے بھی اتنے ہی واقعات ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی نے بے گھر افراد کو پناہ گاہوں کی فراہمی کا قانون منظور کیا تاہم اس پر عملدرآمد کی جانب کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

شیئر: