اکانومسٹ انٹیلیجنس یونٹ کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ایک تہائی سے زیادہ خواتین کو آن لائن ہراسیت کا سامنا کرنا پڑا جن میں سے آدھی چھوٹی عمر کی خواتین تھیں۔
چار بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے خواتین کے خلاف اس رویے کی دو بڑی وجوہات کی نشاندہی کی ہے جن میں خواتین کے پاس اس چیز کا اختیار نہ ہونا کہ ان کی پوسٹ پر کون جواب دے سکتا ہے یا تبصرہ کر سکتا ہے، اور آن لائن ہراسیت کے خلاف رپورٹ کرنے کے قابل بھروسہ نظام کا نہ ہونا ہے۔
خواتین کے پاس اختیار نہ ہونے کے حوالے سے یہ کمپنیاں ایسی سیٹنگز متعارف کروائیں گی جن سے صارفین اپنی حفاظت خود کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر ان کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ پوسٹس پر جواب دینے والوں کو مکمل طور پر یا اسی پوسٹ پر بلاک کر سکیں۔
فیس بک، گوگل، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر نے سادہ زبان استعمال کرنے کا بھی کہا ہے تاکہ صارفین کی سیفٹی ٹولز تک رسائی ہو سکے۔
خواتین کے خلاف ہونے والی ہراسیت کو رپورٹ کرنے کے حوالے سے سوشل میڈیا کمپنیوں کا کہنا ہے کہ صارفین رپورٹ کو ٹریک کر سکیں گے۔
ان کمپنیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ ایسے صارفین کے لیے مزید رہنمائی فراہم کریں گی جو ہراسیت کو رپورٹ کرنا چاہتے ہیں۔
ورلڈ وائڈ ویب فاؤنڈیشن کی سینیئر پالیسی مینیجر ازمینا دھرودیا نے کہا کہ ’کافی عرصے سے خواتین کو تواتر کے ساتھ آن لائن ہراسیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، ان پر حملہ کیا جا رہا ہے اور انہیں چپ کروایا جا رہا ہے۔ یہ جنسی برابری کے لیے کی جانے والی پیش رفت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔‘
’فیس بک، گوگل، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر کے پاس طاقت ہے کہ وہ ہراسیت پر قابو پائیں اور دنیا میں کروڑوں خواتین کو آن لائن ہراسیت سے محفوظ کریں۔‘