Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم

عثمان کاکڑ 21 جون کو انتقال کرگئے تھے اور انہیں 23 جون کو سپرد خاک کیا گیا (فائل فوٹو: اردو نیوز)
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کردیا گیا ہے۔
چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی منظوری کے بعد محکمہ داخلہ بلوچستان کی جانب سے جمعرات کو نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا۔
نوٹی فیکیشن کے مطابق ’عثمان کاکڑ کی موت کی تحقیقات کے لیے کمیشن بلوچستان حکومت کی تجویز پر تشکیل دیا گیا ہے۔‘

 

’دو رکنی کمیشن کی سربراہی بلوچستان ہائی کورٹ کے سینیئر جج جسٹس نعیم اختر افغان کریں گے جبکہ جسٹس نذیر احمد لانگو کمیشن کے رکن ہوں گے۔‘
 نوٹی فیکیشن میں کہا گیا ہے کہ ’کمیشن سابق سینیٹر عثمان کاکڑ کی موت کی وجہ معلوم کرے گا اور 30 دن کے اندر اپنی رپورٹ بلوچستان حکومت کو پیش کرے گا۔‘
واضح رہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما عثمان کاکڑ کو 17 جون کو سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے کوئٹہ کے نجی ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا جہاں ان کا آپریشن کیا گیا اور 19 جون کو انہیں ایمبولینس کے ذریعے کراچی منتقل کیا گیا۔ وہ کراچی کے آغا خان ہسپتال میں 21 جون کو انتقال کرگئے۔
کراچی سے ان کی میت کوئٹہ پہنچائی گئی اور پھر بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ میں ان کے آبائی علاقے مسلم باغ میں ان کی تدفین کی گئی۔ 
تدفین سے قبل تعزیتی جلسے سے خطاب میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ ’عثمان خان کاکڑ کسی بیماری سے نہیں مرے بلکہ ان کے ساتھ ظلم و زیادتی ہوئی۔‘

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے بعض رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ’عثمان کاکڑ کی موت طبعی نہیں ہے‘ (فائل فوٹو: اردو نیوز)

ان کے گھر میں لوگ داخل ہوئے۔ ہمارے پاس ثبوت ہیں جو کسی آزادانہ اور غیر جانبدارانہ تحقیقات کرنے والے ادارے کو دینے کے لیے تیار ہیں۔‘
بلوچستان کے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’عثمان کاکڑ کی موت طبعی ہے، ملک دشمن عناصر ان کی موت کو غلط رنگ  دے رہے ہیں۔ خاندان نے تحقیقات کے لیے رابطہ کیا تو حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔‘
یاد رہے کہ عثمان کاکڑ کے بیٹے، رشتہ داروں اور پشتونخوا میپ کے بعض دیگر رہنماؤں نے بھی بیان دیا تھا کہ عثمان کاکڑ کی موت کسی حادثے کا نتیجہ نہیں بلکہ انہیں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت قتل کیا گیا۔ اس کے بعد وزیر داخلہ بلوچستان کی جانب سے یہ وضاحت جاری کی گئی تھی۔

شیئر: