Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستانی ڈرامے میں ’ہر کہانی عورت کے گِرد، مردوں کے لیے ورائٹی نہیں‘

شہزاد شیخ ’پھانس‘ نامی ڈرامے میں ذہنی معذور نوجوان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ فوٹو: سکرین گریب
آج کل پاکستان میں ان ایشوز پر ڈرامے بنانے کا رجحان زور پکڑ رہا ہے جن پر بات کرنا بھی ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ایک ڈرامہ ’پھانس‘ بھی ہے جو خواتین پر ہونے والے جنسی تشدد کے موضوع کا احاطہ کرتا ہے۔
اسے ایک ’تھرلر ڈرامہ‘ بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ جو کردار شروع کی اقساط میں ایک بے ضرر سا معلوم ہو رہا تھا اب جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی جا رہی ہے اس کردار کی پرتیں بھی کھلتی جا رہی ہیں اور ناظرین کا تجسس بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
یہ کردار ہے ’ساحل‘ کا، جسے نبھا رہے ہیں مشہور اداکار شہزاد شیخ جنہیں اس سے پہلے صرف ’ہیرو‘ کے کردار میں ہی دیکھا گیا ہے لیکن اس ڈرامے میں وہ ایک ذہنی طور پر معذور نوجوان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے شہزاد شیخ نے بتایا کہ ’ڈرامہ سیریل پھانس میں ساحل کا کردار کرنا آسان نہ تھا اس کردار کو کرنے سے قبل بہت زیادہ ریسرچ کی۔ ہالی وڈ، بالی وڈ میں اس طرح کے کردار جو لوگ کر چکے ہیں ان کو دیکھا اور سمجھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’اس کے باوجود  جس دن شوٹ پر گیا بہت زیادہ نروس تھا۔ ڈائریکٹر نے شوٹ کے پہلے دن پوچھا تیاری مکمل ہے تو جواب دیا کہ ابھی کچھ نہیں پتہ کیا کرنے والا ہوں۔‘
شہزاد شیخ کے مطابق ’میں نے ڈائریکٹر سے کہا کہ مجھے تین دن دیے جائیں اور شوٹنگ کے دوران وہ دیکھیں کہ میں کیا کررہا ہوں۔ انہوں نے میری بات سمجھی اور پھر میری اداکاری دیکھ کر مجھے شاباش دی اور کہا کہ جیسے میں نے اس کردار کو سوچا تھا تم ویسے ہی کر رہے ہو۔‘
جب شہزاد شیخ سے پوچھا گیا کہ انہوں نے اس کردار کے لیے ہامی کیوں بھری تو انہوں نے جواب دیا کہ جب ڈائریکٹر احمد کامران نے ان کو یہ کہانی سنانے کے لیے بلایا تو کہانی سنتے ہی انہیں لگا کہ یہ کردار مختلف ہے اور چیلنجنگ بھی، لہٰذا فوراً ہاں کر دی۔

شہزاد شیخ معروف اداکار جاوید شیخ کے صاحبزادے ہیں۔ فوٹو: سکرین گریب

شہزاد شیخ نے بتایا کہ ’اب جو ساحل کے کردار میں ٹرننگ پوائنٹ آیا ہے یہی اس کردار کی جان ہے۔ میں نے سوچ رکھا تھا کہ اس کردار کی جو پہلی لیئر ہے اس کے لیے پوری توانائیاں لگا کر کام کروں گا جبکہ دوسری لیئر میں تین گنا زیادہ محنت کروں گا۔ اب دیکھیں لوگ جہاں اس کردار سے محبت کر رہے تھے، اب نفرت کر رہے ہیں اور یہی اس کردار کی خوبصورتی ہے۔‘
شہزاد شیخ کے بقول ’اداکار عموماً ایسے کرداروں کی تلاش میں ہوتے ہیں جو روٹین سے ہٹ کر ہوں۔ ساحل کے کردار میں مختلف شیڈز ہونے کی وجہ سے اس کردار کو کرنے میں دلچپسی زیادہ ہوئی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہماری انڈسٹری کے مرد اداکاروں کے پاس زیادہ ورائٹی نہیں ہوتی۔ پروڈکشن ہاؤسز کو چاہیے کہ وہ ایسی کہانیاں بھی بنائیں جو مردوں کے گرد گھومتی ہوں۔ ہر کہانی عورت کے گرد گھوم رہی ہوتی ہے اور مرد اس کا حصہ ہوتا ہے۔‘

شہزاد شیخ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے والد کو دیکھ کر شوبز کی دنیا میں آئے۔ فوٹو: سکرین گریب

شہزاد شیخ سمجھتے ہیں کہ ضروری نہیں ہے کہ منفیت دکھائی جاتے، مصالحہ دکھایا جائے۔ ’مسئلہ آڈیئنس کا بھی ہے وہ مختلف چیز کو کم ہی قبول کرتی ہے جس کی وجہ سے پروڈکشن ہاؤسز والے بھی پھر اسی طرح کی کہانیاں بنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔‘
اس سوال کے جواب میں کہ سینیئر اداکار جاوید شیخ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے انہوں نے کبھی خود پر اچھی اداکاری کا دباؤ محسوس کیا، تو شہزاد شیخ نے بتایا کہ ’میں اپنے والد کو دیکھ کر اس فیلڈ میں آیا تھا۔ شروع کے دو سال بہت مشکل تھے لوگ میرا موازنہ ان سے کرتے تھے اور سوچتے تھے یہ کوئی معرکہ مارے گا لیکن پھر خود کو سمجھایا کہ محنت کے ساتھ کام کرنا ہے اور آج جب لوگ تعریف کرتے ہیں تو خوشی ہوتی ہے۔‘
شہزاد شیخ کا کہنا ہے کہ ’آرٹ ایک ایسا کام ہے جو کسی کے نام پر نہیں ہو سکتا اگر آپ اچھی اداکاری کر سکتے ہو تو چلو گے یا اچھی گلوکاری کر سکتے ہو، تو چلو گے ورنہ گھر بیٹھ جاؤ گے۔‘

شیئر: