آٹھ جولائی 1972 کو کراچی کے ایک قومی اردو روزنامے کے صفحہ اول پر چھپی سرخی نے پورے ملک میں اضطراب اور اشتعال کی لہر دوڑا دی۔
مشہور شاعر رئیس امروہوی کے قلم سے نکلے مصرعے ’اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے‘ پر مبنی سیاہ حاشیے میں گھری ہوئی سرخی قومی سیاہ بختی کا اعلان کر رہی تھی ۔
اخبار نے جس خبر کے لیے شاعرانہ مصرع کا سہارا لیا تھا وہ ایک روز قبل سات جولائی کو سندھ اسمبلی سے پاس ہونے والے سندھی زبان کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے کے بل کے بارے میں تھی۔
وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے کزن اور سندھ کے وزیراعلیٰ ممتاز بھٹو کی حکومت نے صوبائی اسمبلی میں سندھی زبان کی تدریس، ترویج اور استعمال کا بل پیش کیا۔
بل کی کاپیاں پانچ جولائی کو تمام ممبران کو مہیا کر دی گئی تھی۔ صوبائی اسمبلی کے 62 کے ہاؤس میں اپوزیشن کے ممبران کی تعداد 18 تھی۔
مزید پڑھیں
-
’بیگم نصرت بھٹو کی چھاپہ مار کارروائی‘Node ID: 439421
-
جب بھٹو کرکٹ کے دیوانے تھےNode ID: 483296
-
ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ یا ’مقدمے کا قتل‘Node ID: 554291