پشاور کے قصہ خوانی بازار کے محلہ خداداد کی اس گلی میں ویرانی رقص کر رہی ہے۔ رات چاند کچھ مدھم تھا اور آج سورج کی رنگت کچھ زیادہ ہی پیلی ہے۔ چڑیاں شاید چہچہانا بھول گئیں اور کبوتروں کی غٹرغوں بھی سنائی نہیں دے رہی اور قصہ خوانی بازار کے وہ قصہ گو، ان کا کیا ہوا؟
اسی گلی کے ایک کونے میں واقع اس مکان کے سینے میں دفن کہانیاں، اس آنگن کے گونجتے قہقہے، اس کی شکستہ حال دیواروں میں 'اداسی بال کھولے سو رہی ہے۔' قصہ گوؤں کے اس بازار کا کون سا قصہ تھا جو ایک شاہکار بنا اور اس کا یہ کردار کروڑوں دلوں پر راج کرنے کے بعد سینکڑوں میل دور ممبئی میں الوداعی سلام کہہ گیا۔
دلیپ صاحب کی زندگی کا سفر 11 دسمبر 1922 کو پشاور کے اس کوچے سے شروع ہوا اور برصغیر میں آفاق کی بلندیوں کو چھوتا ہوا ممبئی میں اختتام پذیر ہوا۔
جنم بھومی! کتنا درد ہے ان دو لفظوں میں۔ اسی جنم بھومی کا درد دلیپ صاحب نے اپنے آخری ایام میں محسوس کیا تھا۔
کچھ عرصہ قبل حکومت پاکستان کی جانب سے دلیپ صاحب کے آبائی گھر کو سرکاری تحویل میں لے کر اسے سرکاری طور پر ورثہ قرار دینے کی خبریں منظرعام پر آئیں تو میں نے ان کے گھر کی کچھ تصاویر شیئر کیں۔
سوشل میڈیا پر گھومتی پھرتی یہ تصاویر دلیپ صاحب تک پہنچیں تو انہوں نے اپنے آبائی گھر کی مزید تصاویر دیکھنے کی خواہش کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ یہی میری دلیپ صاحب کے ساتھ آخری ملاقات کا قصہ ہے۔
بطور صحافی سنہ 2014 میں برطانوی نشریاتی ادارے کے لیے ایک رپورٹ کی تیاری کی غرض سے میں نے پہلی بار قصہ خوانی کے اس بازار میں قدم رکھے۔ یہ ہر قدم ماضی کی طرف جاتا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ مقفل گھر کے دروازے کے باہر کھڑا تھا اور یادوں کے پردہ سکرین پر دلیپ کمار کے وہ الفاظ کسی فلم کی طرح چل رہے تھے جو انہوں نے اپنے ایک بلاگ میں بیان کیے تھے:
’جس گھر میں میرا جنم ہوا اور غیرمنقسم ہندوستان میں پشاور کے قصہ خوانی بازار میں جہاں میرا اچھا خاصا بچپن گزرا، اس کو پاکستان کی جانب سے قومی ورثہ قرار دیے جانے کی خبر نے میری اس گھر اور اس کے ارد گرد گزارے گئے خوشگوار لمحات کی یادیں تازہ کردی ہیں۔‘
پھر انہوں نے اپنا قصہ یوں بیان کیا: 'مجھے یاد ہے کہ یہ گھر میرے والدین، دادا دادی، کئی چاچا تایا، چاچی تائی اور کزنز کی آوازوں اور ان کے قہقہوں سے گونجتا رہتا تھا۔ میری ماں کمزور اور نازک سی تھیں جو ہمیشہ گھر کے کشادہ کچن میں ہوتی تھیں میں ایک چھوٹا سا بچہ ان کے کام کاج کے ختم ہونے کا انتظار کرتا تاکہ ان کے قریب بیٹھ سکوں اور ان کے خوبصورت چہرے کو دیکھتا رہوں۔‘
دلیپ صاحب نے مزید بتاتا کہ 'میری یادوں میں ایک بڑا کمرہ ہے جہاں شام کی چائے کے لیے تمام خاندان جمع ہوتا تھا، ایک بڑا کمرہ جہاں خواتین نماز پڑھتی تھیں، وہ چوبارہ، سونے کے کمرے، سب کچھ۔ مجھے اپنے دادا کے کندھوں پر سواری کرتے ہوئے اور دادی کی گھر میں اکیلے گھومنے پھرنے کی جھوٹ موٹ کی ڈراؤنی کہانیاں بھی یاد ہیں۔‘
گھر کا دروازہ کھلا تو یہی تمام منظر آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔ کبوتروں کی غٹرغوں، صحن میں چہل پہل، قہقہے، باورچی خانے سے اٹھتا دھواں، سیڑھیوں پر اچھل کود کرتے بچے۔۔۔ ایسا کچھ نہ تھا۔
دیکھنے والوں کے لیے یہ صرف ایک کباڑ خانہ تھا، ایک گودام، جس کے مختلف کمروں میں بوریاں پڑی ہوئی تھیں، کسی اپنے کے انتظار میں شکستہ حال چھت اور دیواریں بھی تھک چکی تھیں، کبوتروں کی غٹرغوں جھینگروں کی ٹوں ٹوں میں تبدیل ہوچکی تھی، لکڑی کے دروازوں اور کھڑکیوں کو وقت کی دیمک نے چاٹ کھایا تھا۔
لیکن دیکھنے والوں کی آنکھ نے دیکھا کہ یہی وہ سٹیج تھا، جہاں زندگی کا پہلا ایکٹ ہوا، پہلا منظر، پہلا سین۔۔۔۔ پھر وہی منظر۔۔۔۔ ادھر ادھر گھومتے بچے، بوڑھوں بڑوں کی باتیں، خواتین کی سرگوشیاں اور اپنے ماں کے پلو کو منہ میں دبائے بیٹھا ایک ننھا سا فنکار۔۔۔ اور کہیں دور سے گونجتی پکار ۔۔۔۔ کٹ ۔۔۔۔پرفیکٹ۔۔۔ دلیپ صاحب جسٹ پرفیکٹ!
دلیپ صاحب، ان گلی کوچوں کو چھوڑ کر ممبئی کی رنگین دنیا میں آباد ہوگئے۔
ملک تقسیم ہوا، گھر سرحد کے پار قرار چلا گیا۔ تقسیم ہند کے 40 سال بعد 1988 میں دوبارہ دلیپ کمار نے اس گھر میں قدم رکھا اور پھر زندگی نے کبھی دوبارہ موقع نہ دیا کہ وہ قصہ گوؤں کی اس بستی میں آکر اپنا قصہ سناتے۔
وقت سورج کی طرح ڈھلتا رہا اور زندگی کا پہیہ خیبر میل کی سی تیزی سے چلتا ہوا ممبئی کے سٹیشن پر رکا جہاں زندگی کی شام ہوگئی۔ لیکن قصہ یہیں تمام نہیں ہوا۔ دیرینہ دوست اور صحافی حسنین جمال نے خوبصورت لہجے کے شاعر عرفان شہود کی دلیپ کمار پر لکھی گئی ایک نظم تحت الفظ میں پڑھ پر شیئر کی تو اس محبت نامے کا جواب بھی موصول ہوا۔
آخر میں پیش ہے عرفان شہود کی نظم: 'دلیپ کمار کی آخری خواہش'
لے چلو دوستو
لے چلو قصہ خوانی کے بازار میں
اس محلے خدا داد کی اک شکستہ گلی کے مقفل مکاں میں
کہ مدت سے ویراں کنویں کی زمیں چاٹتی پیاس کو دیکھ کر اپنی تشنہ لبی بھول جاؤں
غٹرغوں کی آواز ڈربوں سے آتی ہوئی سن کے
کوٹھے پہ جاؤں کبوتر اڑاؤں
کسی باغ سے خشک میووں کی سوغات لے کر صدائیں لگاؤں
زبانوں کے روغن کو زیتون کے ذائقے سے ملاؤں
جمی سردیوں میں گلی کے اسی تخت پر نرم کرنوں سے چہرے پہ سرخی سجاؤں
کہ یاروں کی ان ٹولیوں میں نئی داستانیں سناؤں
انہی پان دانوں سے لالی چراؤں
مجھے ان پرانی سی راہوں میں پھر لے چلو دوستو
ہاں مجھے لے چلو اس بسنتی دلاری مدھو کی گلی میں
کہ خوابوں کی وہ روشنی آج بھی میری آنکھوں میں آباد ہے