والدین کی فرمانبرداری ، بری موت سے بچنے کا سبب
اللہ تعالیٰ نیک اولاد کی دعائیں قبول فرماتا ہے، مصائب اور بری موت سے حفاظت فرماکر حسن خاتمہ نصیب فرماتا ہے
مولانا محمد عابد ندوی۔جدہ
اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی، والدین کی رضا مندی و خوشنودی میں پوشیدہ ہے اسی طرح والدین کے ساتھ حسن سلوک کی برکت سے نہ صرف چھوٹے گناہ معاف ہوجاتے ہیں بلکہ بڑے گناہوں کا بھی یہ کفارہ ہوجاتا ہے۔ نیز یہ جنت میں داخلہ کی ضمانت بھی ہے۔ اطاعت شعار اور فرمانبردار اولاد کیلئے والدین کے ساتھ حسن سلوک کے یہ فوائد و برکات ہیں جن کو ہم دینی اور اخروی فوائد اور خوشخبریاں بیان ہوئی ہیں جن کا تعلق آخرت سے زیادہ دنیا سے ہے۔ چونکہ انسان کی فطرت میں حرص و طمع اور نقد فائدہ کی طلب ہے اسلئے آئندہ سطور میں ہم والدین کے ساتھ حسن سلوک کے دنیاوی فوائد و برکات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ بسا اوقات کسی نیکی کا ثواب اور فائدہ آدمی کو دنیا میں ہی مل جاتا ہے اور وہ اپنی آنکھوں سے اپنی ذات میں، اپنے مال میں یا اپنی اولاد میں عمل صالح کا فائدہ اور ثواب دیکھ لیتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی نیکی کا ثواب بندہ کو دنیا میں نہیں ملتا بلکہ اللہ تعالیٰ اسے آخرت کیلئے محفوظ فرما دیتا ہے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نیکی کا ثواب بندہ کو دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی وہ اس نیکی کے فائدہ اور اجروثواب سے محروم نہیں رہتا۔ اپنی نیکیوں میں جن کا ثواب دنیا اور آخرت دونوں جگہ ملتا ہے، والدین کے ساتھ حسن سلوک کی نیکی بھی ہے۔حضرت عائشہؓروایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ اجرو ثواب میں زیادہ تیز رفتار بھلائی (والدین کے ساتھ حسن سلوک والی) نیکی اور صلہ رحمی ہے اور سزا میں تیز رفتاری برائی سرکشی (ظلم و زیادتی اور بدکاری) اور قطع رحمی ہے۔‘‘ (ابن ماجہ / مسند ابی یعلی) ۔
یعنی سب سے جلد جس خیر و بھلائی کا فائدہ اور ثواب آدمی کو ملتا ہے وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی و الا خیر ہے۔ واضح رہے کہ حدیث مبارکہ میں " البر" کا لفظ ہے جس کے معنیٰ مطلقاً نیکی کے بھی ہیں جبکہ احادیث مبارکہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور خیر و بھلائی کیلئے "برالوالدین" اسی طرح رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک اور خیر و بھلائی کیلئے" صلہ الرحم" (صلہ رحمی) کی تعبیر آئی ہے۔ اسی طرح کئی احادیث مبارکہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کیلئے ’’ برالوالدین‘‘ کے بجائے صر ف’’ البر‘‘ کہنے پر بھی اکتفا کیا گیا ہے چنانچہ حدیث بالا میں (اسی طرح بعض اور احادیث میں جو آگے بھی آرہی ہیں)’’ البر‘‘ سے’’ برالوالدین‘‘ (والدین کے ساتھ حسن سلوک والی نیکی) ہی مراد ہے۔ الغرض والدین کے ساتھ حسن سلوک ایسی نیکی ہے جس کا ثواب اور فائدہ بہت جلد اولاد کو پہنچتا ہے۔ جلد پہنچنے والے ان فوائد کی بے شمار صورتیں ہیں۔
ہر انسان کو ایک دن ضرور مرنا ہے ۔ زندگی اور موت گرچہ انسان کے اختیار میں نہیں، پھر بھی کون شخص ہے جو اس دنیا میں طویل زندگی کا خواہشمند نہیں؟ اسی طرح کون ہے جو رزق کی وسعت اور مال و دولت کی فراوانی نہیں چاہتا؟ احادیث رسول میں یہ صراحت موجود ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک عمر اور روزی میں کشادگی کا باعث ہے۔ حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ جو شخص اس بات سے خوش ہو کہ اس کی عمر طویل ہو اور اس کے رزق میں اضافہ ہو تو اسے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا چاہئے۔‘‘ (مسند احمد، الترغیب و الترہیب) ۔
حضرت ثوبانؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ تقدیر کو کوئی چیز نہیں بدلتی سوائے دعاکے، عمر میں اضافہ نہیں ہوتا مگر بر(والدین کے ساتھ حسن سلوک والی نیکی) سے اور بے شک کبھی آدمی گناہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے روزی سے محروم کردیا جاتاہے۔‘‘ (مسند احمد/ صحیح ابن حبان) ۔
اسی طرح حضرت معاذ بن انسؓ ، رسول اللہ کا ایک ارشاد گرامی یوں نقل کرتے ہیںکہ:’’ اس شخص کیلئے خوشخبری ہے جس نے اپنے والدین کے ساتھ نیکی کی، اللہ عزو جل اس کی عمر میں اضافہ فرماتا ہے۔ ‘‘(الادب المفرد/ مسند ابی یعلی) ۔
احادیث بالا میں یہ صراحت ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک کا فائدہ دنیا میں نیک اور فرمانبردار اولاد کو یہ ملتا ہے کہ ان کی عمر اور روزی میں اضافہ ہوتا ہے۔ بعض احادیث میں یہی فائدہ صلہ رحمی (رشتہ داروں کے ساتھ بھلائی) کا بھی بیان ہوا ہے۔ اس سے قبل یہ وضاحت گزر چکی کہ صلہ رحمی میں والدین کے ساتھ حسن سلوک بھی بدرجہ اولیٰ شامل ہے کیونکہ تمام رشتہ داروں سے رشتہ داری کی بنیاد تو والدین ہی ہوتے ہیں۔ عمر اور روزی میں زیادتی شارحین حدیث نے کئی مطلب بیان کئے ہیں انہی میں ایک راجح مفہوم یہ ہے کہ یہ برکت سے کنایہ ہے یعنی ایسے شخص کی عمر اور روزی میں خوب برکت ہوتی ہے۔ مال و دولت کی بہتات نہ بھی ہو تو موجود تھوڑے سے مال میں اس کی ساری ضروریات بآسانی پوری ہوتی رہتی ہیں ، اسی طرح موت کے مقررہ وقت میں ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہیں ہوتی لیکن اس مقررہ عمر میں اسے خوب صدقات جاریہ اور اعمال صالحہ وغیرہ کی توفیق ملتی ہے جتنا کہ بالعموم اس سے زیادہ عمر والوں کو بھی نہیںملتی یا اس کے کارناموں اور نیکیوں کی وجہ سے اس کے مرنے کے بعد بھی اس کا نام تادیر زندہ رہتا ہے گویا کہ وہ ابھی زندہ ہے مرا نہیں۔ رزق میں وسعت کے حوالے سے ایک حدیث مبارکہ میں یہ صراحت بھی ہے کہ’’ آپس میں صلہ رحمی کرنے والے کبھی محتاج نہیں ہوتے۔ وہ خود فاسق و فاجر (گناہوں میں مبتلا) بھی ہوں تب بھی صلہ رحمی کی وجہ سے ان کے مال و اولاد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔‘‘(صحیح ابن حبان/ شعب الایمان)۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کا یہ فائدہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسی نیک اولاد کی دعائیں قبول فرماتا ہے، دنیاوی مصائب و آلام سے ان کی حفاظت فرماتا ہے۔ اگر وہ کسی ناگہانی مصیبت میں گرفتار ہوجائیں تو اس مصیبت سے نکلنے کا راستہ پیدا فرما دیتا ہے۔ اسی طرح بری موت سے حفاظت فرماکر حسن خاتمہ نصیب فرماتا ہے۔ حضرت علیؓ روایت کرتے ہیںکہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ جس کو اس بات سے خوشی ہو کہ اس کی عمر میں اضافہ کیا جائے ، اس کی روزی میں وسعت دی جائے اور اس سے بری موت دور کی جائے (ایک روایت میں یہ اضافہ ہے، اور اس کی دعا قبول کی جائے) تو ایسے شخص کو چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے۔‘‘ (مسند بزار/ طبرانی)۔
اس طرح حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم کو یہ ارشاد فرماتے سنا :’’ بے شک صدقہ اور صلہ رحمی کے سبب اللہ عمر میں اضافہ فرماتا ہے، بری موت کو اسی طرح ناپسندیدہ و ناگوار امور کو (مثلاً ناگہانی حادثات و واقعات وغیرہ) کو دور فرماتا ہے۔‘‘ (مسند ابی یعلی/ صحیح ابن حبان)۔
بری موت کے کئی مطالب علماء نے بیان کئے ہیں اور وہ سب ہی یہاں مراد ہوسکتے ہیں مثلاً بری موت کا مطلب ہے سوئے خاتمہ (برا خاتمہ) یعنی معصیت و نافرمانی کے راستہ میں موت آجائے یا مرتے وقت شیطان غلبہ پا لے اور کلمہ شہادت نصیب نہ ہو۔ موت کے وقت شیطان کے وساوس اور حملوں سے رسول اللہنے اپنی دعاؤں میں اللہ سے پناہ مانگی ہے۔ اسی طرح بری موت کا ایک مطلب ناگہانی طور پر اچانک آنے والی یا حادثاتی موت ہے۔ یہ اسلئے بری موت ہے کہ آدمی توبہ کی توفیق یا ضروری وصیت وغیرہ سے محروم رہ جاتا ہے جبکہ موت اپنے آثار و قرآئن کے ساتھ آئے تو اس کیلئے تیاری اور اللہ کے حضور توبہ استغفار کی توفیق کی امید کی جاسکتی ہے چنانچہ رسول اللہ سے مروی بعض دعاؤں میں اچانک آنے والی موت سے بھی پناہ مانگی گئی ہے۔ الغرض احادیث مبارکہ کی روشنی میں والدین کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی کا یہ نقد اور دنیاوی صلہ ہے کہ بری موت سے حفاظت رہتی ہے اور آدمی اچھی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہوتاہے۔
ناگہانی مصیبتوں میں پڑنے پر اللہ کی غیبی مدد اور دعاؤں کی قبولیت کے سلسلے میں وہ مشہور واقعہ یپش کیا جاسکتا ہے جسے آپ نے بھی ضرور پڑھا یا سنا ہوگا کہ پچھلے زمانے میں3 لوگ کہیں جارہے تھے ، اچانک بارش شروع ہوگئی ۔ انہوں نے ایک غار میں پناہ لی۔ کچھ ہی دیر میں ایک چٹان اوپر سے لڑھک کر اس طرح گری کہ غار کا راستہ بند ہوگیا۔ اب ان لوگوں کے باہر نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی کہ وہ مضبوط چٹان راستہ سے ہٹانا ان کیلئے ممکن نہ تھا۔ ان 3 افراد نے باہم مشورہ کرکے اپے نیک اعمال کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ مضبوط چٹان راستہ سے ہٹ گئی وار وہ لوگ باہر نکل آئے۔ ان 3 افراد میں سے ایک نے اپنے بوڑھے والدین کی خدمت ہی کے حوالے سے دعا کی تھی۔(یہ تفصیلی واقعہ بخاری و مسلم میں بھی اور کئی کتب احادیث میں منقول ہے) ۔
اسی طرح حضرت اویس قرنیؒ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنی بوڑھی والدہ کی خدمت ہی کی وجہ سے رسول اللہ کی خدمت میں حاضر نہ ہوسکے تھے۔ انہیں رسول اللہ نے والدہ کا فرمانبردار اور خیر التابعین فرمایا نیز یہ بھی فرمایا کہ وہ اگر کسی بات پر قسم کھالیں تو اللہ ان کی قسم کو پوری فرمائے گا۔ اسی طرح ان کے مستجاب الدعوات ہونے کی بشارت دیتے ہوئے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ وہ تمہارے پاس آئیںگے، تم میں سے جس کی ملاقات بھی ان سے ہو وہ ضرور ان سے مغفرت کی دعا کروائے(تفصیل کیلئے دیکھئے صحیح مسلم) یہ مقام و مرتبہ انہیں ظاہر ہے والدہ کی خدمت و فرمانبرداری کی وجہ سے ملا تھا۔
اسی طرح بعض احادیث مبارکہ میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا یہ فائدہ بھی بیان ہوا کہ’’ ایسی اولاد سے خاندان اور گھر والوں میں محبت پیدا ہوتی ہے نیز اللہ تعالیٰ ایسی فرمانبرادر اولاد کے گھروں (اور ان کے شہروں) کو بھی آباد فرما دیتا ہے۔‘‘(مسند احمد/ بیہقی) ۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ خود اس شخص کی اولاد فرمانبردار او ر اچھا سلوک کرنے والی ہوگی ۔ اس سلسلے میں حضرت ابوہریرہ ؓ ایک روایت اس طرح نقل کرتے ہیںکہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ تم لوگوں کی عورتوں کے بارے میں پاکیزگی اختیار کرو تو تمہاری عورتیں پاکیزہ رہیں گے (اور لوگ تمہاری عورتوں کے بارے میں پاکیزگی اختیار کریں گے) تم اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو ، تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے گی۔‘‘ (الترغیب و الترہیب، مستدرک حاکم) ۔
ایسا اسلئے بھی ہے کہ بسا اوقات جزا اور بدلہ اسی عمل کی جنس سے ہوا کرتاہے ۔ عربی اور اردو میں مثل بھی مشہور ہے کہ جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے لہذا والدین کی خدمت و فرمانبرداری اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کایہ نقد صلہ بھی ان شاء اللہ ضرور ملے گا کہ ان کی اولاد فرنبردار اور حسن سلوک کرنے والی ہوگی۔