آتش پرستوں یا مجوسیوں کی مذہبی کتاب ’اوستا‘ کہلاتی ہے، اور اس کتاب کی تعلیم دینے والا ’اوستاد‘ کہلاتا ہے۔ فوٹو: فری پِک
صلح کر لو یگانہ غالب سے
وہ بھی استاد تم بھی اک استاد
میرزا غالب کے آباء ترک تھے اور یگانہ یاس چنگیزی کے اجداد تاتار۔ یگانہ کی رگوں میں دوڑتے چنگیزی خون نے جوش مارا تو وہ غالب کی شعری قلمرو پر چڑھ دوڑے اور تنقید کے میدان میں خوب نام کمایا اور خود کو غالب شکن کہلوایا۔ جب تیغِ تنقید کُند ہوئی تو ناچار عظمتِ غالب کے آگے ہتھیار ڈال دیے مگر اس ہشیاری سے کہ غالب کے ساتھ خود کو بھی استاد قرار دے دیا۔
لفظ ’استاد‘ قدیم فارسی سے متعلق ہے۔ آتش پرستوں یا مجوسیوں کی مذہبی کتاب ’اوستا‘ کہلاتی ہے، اور اس کتاب کی تعلیم دینے والا ’اوستاد‘ کہلاتا ہے۔ یہی اوستاد جزوی تبدیلی کے بعد ’استاد‘ ہوگیا، اور جب عربی میں پہنچا تو حرف ’دال‘ کے ’ذال‘ سے بدل جانے پر ’استاذ‘ کہلایا۔ پھر اہل عرب نے اپنے قاعدے کے مطابق اس استاذ کی جمع ’اساتذہ‘ بنا لی۔ اردو نے ’استاذ‘ کے مقابلے میں ’اساتذہ‘ کو پذیرائی بخشی یوں یہ لفظ نثر و نظم میں راہ پا گیا۔ دیکھیں حیدرآباد دکن کے ’رؤف رحیم‘ کیا کہہ رہے ہیں:
سارے اساتذہ سے چُراؤ سخن کا رنگ
گر کچھ نکھارنا ہو تمہیں اپنے فن کا رنگ
لفظ ’استاد‘ نے اردو میں فارسی سے بڑھ کر وسعت پائی۔ یوں اس کے معنی میں ’معلم، کامل، ماہر، چالاک، عیار، شعبدہ باز، مداری، نائی، باورچی، موجد، گرو اور پیر و مرشد‘ شامل ہوگئے۔
اردو نے اس باب میں ایک استادی اور دکھائی اور وہ یہ کہ اُس نے اگر استاد فارسی زبان سے لیا تو معلم عربی کا اپنایا، پھر اتالیق ترکی زبان سے آیا تو گرو ہندی سے اٹھایا۔ پھر ساتھ ہی انگریزی کے ٹیچر کو بھی شرف قبولیت بخشا، نتیجتاً پانچ مختلف زبان کے یہ پانچوں الفاظ آج اردو میں پہلو بہ پہلو برتے جاتے ہیں۔
اردو زبان کی اسی کشادہ دلی نے اس کا دامن خوبصورت اور بامعنی الفاظ سے بھر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج اردو کا ستارہ اوج کمال پر ہے۔
’اوج‘ سے یاد آیا کہ ہماری عمومی لغات لفظ ’اوج‘ کو عربی سُجھاتی اور اس کے مترادفات بلندی، رفعت اور عروج بتاتی ہیں۔ معنی و مترادفات کی حد تک تو بات درست ہے مگر لفظ ’اوج‘ عربی نہیں بلکہ سنسکرت سے متعلق ہے۔ اور اس کی اصل ’اُوچ‘ ہے جس کی دوسری صورت ’اونچ‘ بھی ہے، لفظ اونچا اور اونچائی اسی متعلق ہے۔ یہی ’اُوچ‘ عربی میں ’اوج‘ ہوگیا، بعض لغت نویس ’اوج‘ کو فارسی کے ’اوگ‘ سے متعلق بتاتے ہیں، مگر حق یہ کہ فارسی کا اوگ بھی اصلاً سنسکرت کا ’اوچ‘ ہی ہے۔ اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ’اوج‘ کی رعایت سے فیض احمد فیض کا شعر ملاحظہ کریں:
گر آج اوج پہ ہے طالعِ رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
’رقیب‘ سے متعلق پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اس کے معنی نگاہ رکھنے والا یعنی نگہبان ہیں۔ ایسی صورت میں ایک محبوب کے دو عشاق اس لیے رقیب کہلاتے ہیں کہ ہر دو نے ایک ہی محبوب پر نظر رکھی ہوتی ہے۔ یہ بات ان میں باہم حسد یا رنجش کا باعث بنتی ہے اس لیے رقیب کے مجازی معنی میں دشمن، بدخواہ، مخالف اور عدو داخل ہوگئے۔
فارسی کی ایک معتبر فرہنگ کے مطابق لفظ ’دشمن‘ دو لفظوں کا مرکب ہے، اس میں پہلا لفظ ’دش‘ ہے جس کے معنی بد یا برا ہیں جب کہ ’من‘ کے معنی نفس ہے۔ یوں دشمن کے معنی بدنفس و بددل کے ہیں۔ جب کہ ’عدو‘ جو دشمن کا عربی مترادف ہے اس کے لفظی معنی دوڑ کے حملہ کرنے کے ہیں چوں کہ یہ کام حملہ آور کیا کرتے تھے یوں ’عدو‘ کے معنی دشمن کے ہوگئے۔
خیر لفظوں کا ہیر پھیر نئی بات نہیں کہ قدیم زمانوں سے زبانوں میں یہ ہجرت جاری ہے۔ کہیں لفظ چولا بدلتا ہے اور کہیں معنی بدل جاتے ہیں۔ لفظ ’مشکور‘ ہی کو دیکھ لیں جس کی عربی صورت سے دھوکا کھا کر اکثر حضرات اس کا اردو استعمال غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے تمام حضرات کے لیے جناب سید سلیمان ندوی کا قول فیصل کا درجہ رکھتا ہے کہ ’عربی میں ’مشکور‘ اس کو کہتے ہیں جس کا شکریہ ادا کیا جائے، مگر ہماری زبان میں اس کو کہتے ہیں جو کسی کا شکریہ ادا کرے۔ اس لیے ’مشکور‘ کی جگہ بعض عربی کی قابلیت جتانے والے اس کو غلط سمجھ کر صحیح لفظ ’شاکر‘ یا ’متشکر‘ بولنا چاہتے ہیں، مگر ان کی یہ اصلاح شکریہ کے ساتھ واپس کرنی چاہیے۔‘
اب ’مشکور‘ کو خاص اردو معنی کے ساتھ مانی ناگپوری کے شعر میں ملاحظہ کریں:
جذبۂ ہمدردیِ الفت ترا مشکور ہوں
جب کسی کی آنکھ بھیگی میرا دامن نم ہوا
لفظوں کا یہی روپ و بہروپ ہے جو ان میں دلچسپی پیدا کرتا ہے۔ ویسے لفظ ’بہروپ‘ کے رُخ سے نقاب الٹیں تو اسے سنسکرت سے متعلق پائیں گے۔ یہ دو لفظوں سے مل کر بنا ہے۔ اس میں ’بہ‘ کے معنی ’بہت یا بہت سے‘ کے ہیں جب کہ ’روپ‘، شکل و صورت کو کہتے ہیں یوں ’بہروپ‘ کے معنی ہوئے ’بہت سے روپ‘۔ اس بہروپ کی رعایت سے ندیم فاضلی خوب کہہ گئے ہیں: