Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کا سندھ پلان: ماریہ میمن کا کالم

اپریل میں کراچی کے حلقہ این اے 249 میں پی ٹی آئی کو شکست ہوئی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پی ٹی آئی اور وزیر اعظم عمران خان ایک تازہ منصوبے کے ساتھ سندھ کی سیاست میں نقب لگانے کی تیاری میں ہیں۔ اس کو پی ٹی آئی 2.0 کہیے یا پی ٹی آئی کا توسیع کا منصوبہ مگر جو بھی ہو یہ وزیراعظم کے تازہ ترین اعتماد کا مظہر ہے جو انہیں حالیہ انتخابی کامیابیوں سے ملا ہے۔
اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پہلے حلیم عادل شیخ بطور اپوزیشن لیڈر سامنے آئے اور اب ارباب غلام رحیم معاون خصوصی کے طور متحرک ہو گئے ہیں۔ وزیراعظم جلد ہی سندھ میں جلسے بھی شروع کر رہے ہیں اور وفاقی وزرا کی سندھ کی حکومت پر لفظی گولہ باری میں بھی نیا جوش و خروش آ چکا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں شاہ زین بگٹی کی وفاقی وزیر کے رتبے کے ساتھ بطور معاون خصوصی نامزدگی اور گورنر بلوچستان کی تبدیلی بھی پی ٹی آئی کے توسیع پسندانہ منصوبوں اور بڑھتے ہوئے اعتماد کی عکاسی کرتے ہیں۔
ان نامزدگیوں پر پرانے چہرے اور الیکٹیبلز کی سیاست پر تنقید بھی ہو گی مگر پی ٹی آئی کے لیے بیک وقت نظریات اور جوڑ توڑ  کا دوہرا معیار اب ایک سیاسی حکمت عملی بن چکا ہے جس کا وہ خاص برا بھی نہیں مناتے بلکہ شاید اس پر  فخر بھی کرتے ہیں۔ 
پی ٹی آئی کا سندھ پلان ان کے حساب سے ٹھیک وقت پر اس لیے شروع ہو رہا ہے کہ انتخابات میں دو سال باقی ہیں۔ آخری سال میں تو انتخابی مہم شروع ہو جائے گی جبکہ اس سال  وہ اپنے آپ کو گراس روٹ تک لے کر جائیں گے۔ اس میں پی پی پی سے متنفر الیکٹیبلز کو شامل کیا جائے گا۔

وزیر اعظم جلد ہی سندھ میں جلسے بھی شروع کر رہے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کئی چہرے پی پی پی کے اندر سے بھی ٹوٹیں گے اور اندرون سندھ کے شہری علاقوں خصوصا حیدرآباد، سکھر اور میر پور خاص  سے نئے چہرے سامنے آئیں گے۔ شہروں میں پی ٹی آئی کراچی والی پالیسی اپنائے گی یعنی ایم کیو ایم کا موجودہ ووٹ توڑے گی جبکہ دیہی حلقوں میں جنوبی پنجاب کی طرح جاگیر داروں اور پرانے سیاست دانوں پر انحصار ہو گا۔  
سندھ پلان کئی وجوہات سے پی ٹی آئی اور ان کے خیر خواہوں کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس کی سب سے پہلی وجہ کراچی ہے۔ پی پی پی نے کبھی سامنے اور کبھی پس منظر مختلف حیلوں اور طریقوں سے کراچی کی انتظامیہ پر اپنی گرفت کمزور نہیں ہونے دی۔
مقامی حکومت کے اکثر محکمے براہِ راست صوبائی نگرانی میں ہیں۔ صوبائی حکومت کے ہی مشیر مرتضی وہاب کو کراچی کا ایڈمنسٹریٹر لگایا جا رہا ہے۔ کراچی پیکیج کے طور پر وفاق کی طرف سے کافی منصوبے بنائے گئے مگر وہ سب صوبائی حکومت کے ساتھ ہی کسی نہ کسی طرح منسلک ہو جاتے ہیں۔
کراچی کا کاروباری طبقہ اس کے بارے میں اپنے تحفظات کا بھی اظہار کرتا رہتا ہے اور اٹھارویں ترمیم کے فنڈز کا  بقول سندھ کی اپوزیشن غیر مساویانہ تقسیم بھی ایک مستقل ایشو ہے۔
اس کا حل 2002-2008 فارمولے میں دیکھا جا رہا ہے جس کے لیے صوبائی حکومت کی تبدیلی کی علاوہ کوئی اور راستہ سامنے نہیں ہے۔ کچھ حلقوں کے مطابق پی پی پی کے مستقل تین ادوار کے بعد تبدیلی کا وقت لانے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم سے الگ ہوئی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس کے ساتھ ساتھ سندھ میں پی ٹی آئی کی  سیاسی بقا کے لیے یہ توسیع ناگزیر ہے۔ پی ٹی آئی کا تازہ اعتماد اپنی جگہ مگر ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ فیصل واوڈا کی خالی کردہ نشست پر ان کی کارکردگی کو قابل ذکر بھی نہیں کہا جا سکتا۔
 پی ٹی آئی کے لیے اگلے دور میں اپوزیشن پر اپنے آپ کو سیٹل کرنا  سیاسی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔ اس لیے وہ اپنے آپ کو اگلی حکومت کے طور پر پیش کریں گے تا کہ کراچی کی اپنی موجود سیٹیں بھی بچائیں اور اندرون سندھ سے اتنی سیٹیں لے سکیں کہ اسمبلی کا توازن کسی طرف بھی جا سکے۔ 
پیپلز پارٹی کے لیے یہ ان کی مخصوص ’مفاہمت کی سیاست‘ سب سے کڑا امتحان ہو گا اور ان کے اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں کے لیے رکاوٹ بھی۔ پچھلے کچھ عرصے سے پیپلز پارٹی اپنے آپ کو پی ڈی ایم سے علیحدہ کر کے اور کھلی مخاصمت سے بچتے بچتے اپنے لیے پنجاب اور دیگر جگہ مواقع دیکھ رہی تھی۔ پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر میں ان کی کارکردگی کو حوصلہ افزا کہا جا سکتا ہے جبکہ پنجاب میں ان کو کسی طرف سے کوئی خاص رسپانس نہیں ملا۔
اب لگتا ہے کہ ان کو اپنے گھر کے قلعے میں نقب کو روکنے کی تیاری کرنی ہو گی۔ ان کے لیے یہ فیصلہ بھی اہم ہو گا کہ وہ مفاہمت کے ساتھ کب مخاصمت کی ٹون اختیار کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے ’سندھ کارڈ‘ کے لیے بھی مشہور رہی ہے ۔ کیا یہ کارڈ اب بھی موثر ہے؟ اور کیا ڈیڑھ دہائیوں کا اقتدار اور سندھ کی ترقی پر سوالات سے ان کی سیاسی مشکلات میں اضافہ ہو گا؟ ان سوالات کا جواب مستقبل قریب میں واضح ہو جائے گا۔ 
اگر بات واضح ہونے کی ہو تو آج کل پاکستان کی سیاست میں سب سے غیر واضح ن لیگ کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ شہباز شریف اور مریم نواز کے طرزِ سیاست کا فرق البتہ سب کے سامنے ہے اور اسی کنفیوژن کی وجہ سے وہ بظاہر سیاسی بند گلی میں نظر آتے ہیں۔
 

سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی گڑھ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اگرچہ ن لیگ کی سیاسی مشینری پنجاب میں بدستور موجود ہے اور موقع پا کر  سیاسی ماحول میں اضطراب پیدا کر سکتی ہے مگر سندھ کی حد تک ن لیگ کے پاس کوئی پلان نظر نہیں آتا۔ مفتاح اسماعیل نے اپنی ذاتی کوشش سے ضمنی انتخاب میں جان ڈالی مگر پارٹی کا کوئی دور رس سیاسی منصوبہ سندھ میں نظر نہیں آتا اور پہلے کی طرح وہ موقع ملنے پر پنجاب پر ہی فوکس کریں گے۔ 
پی ٹی آئی کا سندھ پلان ان کے 2018  کے وسیع پلان کا حصہ ہے۔ اگر وہ صوبائی سیٹوں پر اپنی تعداد بڑھائیں گے تو اس کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں بھی سیٹیں بڑھیں گی۔ جس سے اگلی حکومت کی صورت میں ان کے لیے قانون سازی میں آسانی ہو گی۔
ابھی تک پی ٹی آئی اور پی پی پی کا براہ راست کانٹے دار مقابلہ کم ہوا ہے۔ کراچی میں لیاری کی سیٹ اور سندھ میں کچھ الیکٹیبلز کے علاوہ پی ٹی آئی کا نمبر ون ہدف ن لیگ ہی رہی ہے۔
دیکھنا یہ ہے اس نئی سیاسی شطرنج میں کیسی بازیاں کھیلی جاتی ہیں مگر اب پی ٹی آئی کے سندھ پلان سے بلاول ہاؤس اور آصف زرداری کی پٹاری سے بھی نئی چالوں کا انتظار ہے۔

شیئر: