Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

رائل سعودی ایئر فورس کے ریٹائر کرنل کا گھر جو کسی میوزیم سے کم نہیں

کرنل درویش سلمہ کا گھر کسی میوزیم سے کم نہیں ہے۔ حجاز اور عصیر کےعلاقوں کے ماڈلز، کاریں، ہوائی جہاز، مختلف اشکال اور سائز کی مزین مساجد ان کے گھر میں موجود پودوں اور سوئمنگ پول کے گرد ہر کونے میں دکھائی گئی ہیں۔
جب سیاح سلمہ کے گھر میں داخل ہوتے ہیں تو داخلی دروازے پر شاندار قدیم چیزیں ان کا استقبال کرتی ہیں۔
بحیرہ عرب میں جہاز گرنے کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی میں چوٹ آنے کے بعد درویش سلمہ نے 1976 میں رائل سعودی ایئر فورس سے ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ اس کے بعد سلمہ نے اپنے گھر کو ماڈلز(نمونے) بنانے کی ورکشاپ میں بدل دیا تھا۔ ان کے گھر کے اندر اور باہر پھیلے ہوئے مختلف ماڈلز گزرنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔
اس شوق نے ان کے گھر کو ان کے کام میں دلچسپی رکھنے والے مقامی افراد اور غیرملکیوں کے زیارت گاہ کی طرح بنا دیا ہے۔ مکہ کے سابق گورنر شہزادہ ماجد بن عبدالعزیز اور سابق وزیر اطلاعات ڈاکٹر محمد عبدو یمانی نے ان کے گھر کا کئی بار دورہ کیا اور ان کے کام کی تعریف کی، یہاں تک کہ پرنس اینڈریو، ڈیوک آف یارک اور دنیا بھر کے دیگر سینئر عہدیداروں نے بھی اس میوزیم کا دورہ کیا۔
عرب نیوز نے جدہ کے الحمرہ ضلع میں واقع ان کے گھر میں ان سے ملاقات کی۔
انہوں نے سب سے پہلے رائل سعودی ایئر فورس میں اپنی خدمات کی یادیں تازہ کیں، وہ اس کے آغاز کے دور کے عینی شاہد رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ انہوں نے دوسری عرب اسرائیل جنگ کے دوران مصر میں تعلیم حاصل کی، جسے مصر کے سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں ’سہ فریقی جارحیت‘ بھی کہا جاتا ہے۔
انہوں نے عرب نیوز کو بتایا کہ’سابق مصری صدر حسنی مبارک مصری ایئر فورس اکیڈمی میں میرے انسٹرکٹر تھے اور میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔‘

عرب نیوز کے نمائندے نے لکھا کہ ’ہم ان کے گھر کے صحن میں گفتگو کر رہے تھے، کرنل سلمہ جو اب  82  برس کے ہو چکے ہیں، نے مشورہ دیا کہ ہم ان کے کمرے میں جائیں جو کہ زیادہ تر ان کے آرام کرنے کی جگہ ہی ہے  لیکن سلمہ اس  کمرے کا ذرا الگ انداز میں تعارف کراتے ہیں۔ انہوں نے کمرے میں لگی ہوئی قومی اور بین الاقوامی شخصیات کی تصاویر جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ میری پوری دنیا ہے۔‘ ان میں شاہ سعود کے ساتھ ان کی ایک تصویر بھی شامل ہے۔‘
رائل سعودی ایئر فورس میں پہلے پائلٹ ٹرینر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے کرنل سلمہ نے 60 سال قبل خلیج عرب میں اپنے صابر جیٹ فائٹر کے حادثے کو بھی یاد کیا۔
اس حادثے کو اپنی زندگی کا ناقابل فراموش لمحہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’اپنے ایک شاگرد کے ساتھ تربیتی سیشن کے دوران میرے طیارے کو خلیج عرب میں خراب موسم میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور میں نے اپنے ایئربیس کے ساتھ رابطے کی کوشش کی۔ بدقسمتی سے(ہمیں) کوئی جواب نہیں ملا۔ تو ہم سمندر میں گر گئے اور خوش قسمتی سے مجھے ایک انگریزی سمندری جہاز نے بچا لیا۔ پھر ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ نے مجھے کئی برسوں کے علاج کے بعد ریٹائر ہونے پر مجبور کیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مدینہ، اپنے آبائی شہر اور جدہ میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں کام کرنے کرنے لگے۔’اس وقت رئیل اسٹیٹ کا کاروبار عروج پر تھا  اور میں نے پیسے کمانے کے لیے بہت کوشش کی، اس کے بعد میں نے یہاں جدہ میں اپنا گھر بنایا۔‘
انہوں نے مزید کہا ’پھر میں زندگی میں کچھ اکتاہٹ سی محسوس کرنے لگا، میری زندگی میں ایک خالی پن سا تھا۔ بے کار بیٹھے رہنا میرے لیے آسان نہ تھا ،اب مجھے کچھ کرنا تھا۔‘
اپنے وقت کو بھرپور بنانے کے لیے کرنل سلمہ نے دو بنگلہ دیشی معاونین کی مدد سے پرانے ورثے،مکانات اور مساجد کے ماڈلز کنکریٹ اور سٹیل سے بنانے کا سوچا۔ وہ دونوں بنگالی کارکن آج بھی ان کے ساتھ ان کے گھر میں کام کرتے ہیں۔
اس کام کا پہلے سے تجزیہ یا تربیت نہ ہونے کے باوجود سلمہ اور ان کے معاونین نے سٹیل کے جالوں اور لکڑی کے فریموں پر کنکریٹ کے ایک ہزار سے زائد ماڈلز بنائے۔ وہ گزشتہ 47 برس سے یہی کام کررہے ہیں۔
انہوں نے بتایا ’ گھر ان کنکریٹ ماڈلوں سے بھرا ہوا تھا اور پھر میں اس جگہ سے باہر بھاگ گیا۔ پورا صحن ہاتھ سے بنی سیرامک اور کنکریٹ ٹائلوں سے بنایا گیا ہے جو آئندہ کئی برسوں تک باقی رہے گا۔‘

ماڈل تیار کرنے کی اس تکنیک سے واقف ہونے کے بعد سلمہ اور ان کی ٹیم ہاتھ سے بنے چھوٹے اور زیادہ پیچیدہ ماڈلز کی جانب متوجہ ہوئی۔
انہوں نے بتایا ’میں خود کو فنکار نہیں سمجھتا لیکن میں نے اپنے فنکارانہ کام کا آغاز ان تمام اشیاء کے ماڈل بنا کر کیا اور میں نےان 48 مساجد کی تاریخ کو بھی محفوظ کیا جو مدینہ میں مسجد نبوی کی توسیع کے دوران ہٹائی گئی تھیں۔‘
کرنل سلمہ کا کام نہ صرف اس کے گھر میں نمایاں ہے بلکہ جدہ کارنیچے میں بھی اس کی نمائش کی گئی ہے۔
ان کے بقول ’میں نے ایسے ماڈلز بنائے جو جدہ میں سمندری کنارے پر واقع مملکت کے علاقوں کے مختلف ورثوں کے اندازِتعمیر کی نمائندگی کرتے ہیں، اور وہ وہاں (جدہ کارنیچے میں)  20 برس تک رہے۔ وہ زائرین کے لیے بہت اہم مقامات تھے لیکن انہیں جدہ کے سابق میئر عادل فقیہ کے دور میں ہٹا دیا گیا۔
گھر کے صحن کے ایک کونے میں ریاض کے مسک قلعے کا ایک نمونہ اور ہیگرا کے مقبروں کا ایک چھوٹا سا کمپلیکس ہے۔

سلمہ نے کہا کہ’جب بھی میں کسی میگزین یا اخبار میں کوئی دلچسپ چیز دیکھتا ہوں، میں اسے کرتا ہوں۔ بعض اوقات میں مساجد کا دورہ کرتا ہوں اور ان کو دیکھتا ہوں لیکن بنیادی طور پر مجھے تصاویر سے معلومات ملتی ہیں۔‘
صحن کے پچھلے حصے میں سامان سے مکمل طور پر لیس ایک ورکشاپ کام کو ترتیب میں رکھتی ہے اور زائرین کو ماڈل بنانے کا عمل دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے میوزیم میں آنے والے تمام مقامی وغیرملکی افراد کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان کے بچے مستقبل میں بھی اس کام جاری رکھیں گے۔

شیئر: