32 برس قبل پی آئی اے کے لاپتہ ہوجانے والے طیارے کے ساتھ کیا ہوا؟
32 برس قبل پی آئی اے کے لاپتہ ہوجانے والے طیارے کے ساتھ کیا ہوا؟
بدھ 25 اگست 2021 7:28
سید صفدر گردیزی، صحافی۔ اسلام آباد
’اس روز میرے والد کی سالگرہ تھی۔ ہم نے کیک کا انتظام کر رکھا تھا۔ میرے سمیت سارا خاندان ان کی گلگت سے واپسی کا منتظر تھا مگر وہ اس روز واپس نہ آئے۔ ہمارا انتظار بھی طویل ہو گیا۔ میرے دادا دادی کی نظریں ان کی واپسی کی امید پر ہر روز دروازے پر لگی ہوتی تھی۔ میری عمر اس وقت 10 سال تھی۔ آنے والے وقت میں مجھے اپنے آپ کو یقین دلانے میں طویل عرصہ لگ گیا کہ وہ واپس نہیں آئیں گے۔‘
پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کے پائلٹ ایرج بلگرامی اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے جب یہ الفاظ ادا کر رہے تھے تو ان کے لہجے میں چھپا حزن و ملال صاف محسوس ہو رہا تھا۔
ان کے والد کیپٹن احسان بلگرامی ٹھیک 32 برس قبل آج ہی کے دن اپنے سینیئر پائلٹ ایس ایس زبیر کے ہمراہ گلگت ایئرپورٹ سے اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کے فوکر فرینڈشپ پی کے 404 نامی طیارے میں 49 مسافر سوار تھے جن میں 12 بچوں کے علاوہ دو امریکی باشندے بھی تھے۔ میںگورین نامی فری لانس صحافی اور ایک نوجوان خاتون حال ہی میں پاکستان آئے تھے, لیکن 32 سال بعد آج بھی اس طیارے کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔
اس دور میں گلگت سے اسلام آباد کے لیے 10 منٹ کے وقفے سے دو پروازیں چلا کرتی تھیں۔ مسافروں کی سہولت کے علاوہ اس کا مقصد دوردراز اور دشوارگزار پہاڑوں کے اوپر دونوں طیاروں میں رابطہ اور رہنمائی کے ذریعے حفاظت کو یقینی بنانا ہوتا تھا۔
ایئرپورٹ پر مسافروں کے عزیز و اقارب اور دوست الوداع کہنے موجود تھے۔ ان میں پاک فوج کے میجر شاہد اور گلگت میں ایک فارماسیوٹیکل کمپنی کے انچارج مسعود ملک بھی تھے۔ میجر صاحب نے اپنی بیگم رخشندہ اور دوبچوں نو سالہ شمائلہ اور پانچ سالہ شیراز کو سوار کروایا۔
بچے جلدی میں ناشتہ نہیں کر سکے تھے۔ ایئرپورٹ پر انہوں نے رخشندہ کو بتایا کہ وہ فون پر راولپنڈی میں ان کی ماں کو ناشتے کا بندوبست کرنے کا کہہ دیں گے۔
مسعود ملک جن کی شادی کو تین ماہ بھی پورے نہیں ہوئے تھے اپنی بیوی اور بہن کو الوداع کہنے آئے تھے۔ مسافروں میں کرنل حامد علی کا چار افراد پر مشتمل کنبہ بھی شامل تھا۔ ہوائی سفر سے خوف کی وجہ سے وہ عموماً سڑک کے ذریعے سفر کرتے تھے۔
اب کی بار ان کی ترقی کے بعد لاہور تبادلہ ہو گیا تو باقی خاندان کے ساتھ انہوں نے بھی فضائی سفر کا فیصلہ کیا۔
پی آئی اے کا طیارہ صبح چھ بجے اسلام آباد سے گلگت کے لیے روانہ ہوا تھا۔ سات بج کر 36 منٹ پہ اس نے واپسی کی پرواز بھری۔ دونوں پائلٹس اس مشکل ترین روٹ پہ پرواز کے ماہر جانے جاتے تھے۔ ایئر ہوسٹس خالدہ حبیب نے فلائٹ میں کیا جانے والا روایتی اعلان دہرایا۔
گلگت سے 10 منٹ پہلے اڑنے والے طیارے کے پائلٹ نے کپتان زبیر سے حال احوال پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ ’تم چلو ہم تمہارے پیچھے آرہے ہیں۔‘
پہلا طیارہ اسلام آباد پہنچ گیا مگر پی کے 404 اتنا پیچھے رہ گیا کہ کبھی نہ پہنچ سکا۔ کراچی میں کیپٹن احسان بلگرامی کا خاندان سالگرہ کے کیک کے ساتھ ان کا منتظر ہی رہا۔ میجر شاہد اور رخشندہ کے بچے نانی کے گھر ناشتے پہ نہ پہنچ سکے۔
مسعود ملک کی نگاہیں اپنی نوبیاہتا دلہن اور بہن کو دوبارہ دیکھنے سے محروم ہو گئیں۔
25 اگست 1989 کو گلگت سے اسلام آباد آتے ہوئے گم ہو جانے والے اس طیارے کا آج تک سراغ نہیں مل سکا۔ اسی برفانی علاقے میں 1973 میں پاک فضائیہ کا سی ون تھرٹی طیارہ گر کر تباہ ہوا تھا، جس کا ملبہ تین ماہ بعد برف کم ہونے کی وجہ سے مل پایا تھا۔
یہ ایک حیرت انگیز اتفاق تھا کہ پاکستانی طیارے کی گمشدگی والے دن ہی ایک بھارتی مسافر طیارے کے 23 برس بعد ملبہ ملنے کی خبر آئی۔
24 جنوری 1966 کو ایئر انڈیا کا بوئنگ سیون زیرو سیون طیارہ فرانس کے علاقے مونٹ بلانک کی برفیلی پہاڑیوں پر گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ اس حادثے میں ہندوستان کے چوٹی کے ایٹمی سائنسدان اور بھارتی ایٹمی توانائی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ہومی جے بھابھا سمیت 117 مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔ پہاڑوں پر سے برف کم ہونے کی وجہ سے 23 برسوں بعد اس کا ملبہ ملا تھا۔
گلگت سے اسلام آباد آنے والی پروازیں بابوسرٹاپ پہنچنے سے پہلے ہی دو راستے اختیار کرتی تھی۔ پہلا روٹ چلاس، بشام اور بالاکوٹ جب کہ دوسرا راستہ بابو سر، کاغان اور مانسہرہ سے گزرتا تھا۔ گم ہو جانے والے طیارے نے اس روز دوسرا راستہ اختیار کیا جب کہ اس سے پہلے آنے والے طیارے نے پہلا روٹ اپنایا۔
کیپٹن ایس ایس زبیر کو اس علاقے میں پرواز کرتے ہوئے پانچ برس ہو چکے تھے۔ وہ ہاکی کے مشہور کھلاڑی حسن سردار اور معروف کرکٹر سکندر بخت کے ہم زلف تھے۔ ان کے ساتھی پائلٹ احسان بلگرامی ایئر فورس سے کمرشل ایوی ایشن کی طرف آئے تھے۔وہ بھی پہاڑی سلسلوں پر پیچیدہ پرواز کا گہرا تجربہ رکھنے والے پائلٹوں میں شمار کیے جاتے تھے۔
صبح سات بج کر 43 منٹ کے بعد جہاز کا رابطہ اسلام آباد، پشاور، چراٹ اور مظفرآباد میں قائم ایئر ٹریفک کنٹرول کے کسی اسٹیشن سے نہ ہو سکا اور نہ ہی پائلٹ نے خطرے کے اظہار کے لیے ایس او ایس کال دی۔
طیارے کے گم ہو جانے کی اطلاع نے پہلے ملکی دفاعی اداروں اور پھر پورے ملک کو اضطراب سے دو چار کر دیا۔ گلگت اور اسلام آباد کے ایئرپورٹس مسافروں کے لواحقین سے بھر گئے۔ پی آئی اے اور پاکستان ایئر فورس کے طیارے فوری طور پر صورتحال کا جائزہ لینے روانہ ہوگئے۔ ایئر فورس کے پانچ ہوا بازوں نے شام تک دوربینوں کی مدد سے ارد گرد کے علاقے میں تلاش جاری رکھی۔
پہلے روز تلاش میں ناکامی کے باوجود امید کا پنڈولم یقین اور بے یقینی کے درمیان جھولتا رہا۔
اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں کیپٹن ایرج بلگرامی اور مسعود ملک نے اس روز اندیشوں اور امیدوں کے درمیان کشمکش سے جنم لینے والے احساسات کا بھی تذکرہ کیا۔ ایرج بلگرامی بتاتے ہیں کہ ہم سالگرہ کی خوشی منانے کا سوچ رہے تھے کہ موصول ہونے والی ایک کال نے طیارے کی گمشدگی کی خبر دی۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر ہم نے اسلام آباد کی فلائٹ پکڑی۔ دل وسوسوں کی وحشت سے بھرا جا رہا تھا مگر ساتھ ہی یہ امید بھی تھی کہ ممکن ہے کہ کریش لینڈنگ کی وجہ سے مسافر محفوظ ہوں۔
مسعود ملک اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گلگت ایئرپورٹ سے وہ تقریباً پانچ منٹ تک جہاز کو نگاہوں سے اوجھل ہونے تک دیکھتے رہے۔ ایک گھنٹے بعد طیارے کے گم ہونے کی اطلاع ملی تو وہ پریشانی کے عالم میں ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ چونکہ طیارے کے گرنے یا کہیں سے دھواں اٹھنے کی اطلاع نہیں ملی تھی اس لیے ہم لوگ دل کو یہ کہہ کر تسلی دیتے تھے کہ اگر جہاز اغوا بھی ہو گیا ہو تو مسافر تو کم ازکم محفوظ ہوں گے۔
اگلے روز افواہوں اور اندیشوں نے باقاعدہ سازشی نظریات کا روپ دھار لیا۔ چہ مگوئیوں اور اندازوں کے بطن سے تین طرح کے امکانی مفروضوں نے جنم لیا۔ ایک یہ کہ طیارے کو اغوا کے بعد سری نگر یا کابل لے جایا گیا ہے۔
دوسرے کے مطابق کسی تخریب کاری کی وجہ سے طیارہ تباہ ہوچکا ہے اور آخری یہ کہ برفانی پہاڑوں پر فنی خرابی کی وجہ سے جہاز لاپتہ ہو گیا ہے۔
وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے اس حادثے پر کابینہ کا خصوصی اجلاس طلب کیا۔ دفاع کے وزیر مملکت غلام سرور چیمہ نے کابینہ کو اس حوالے سے بریفنگ دی۔ سیکریٹری دفاع اجلال حیدر زیدی کو پاکستان آرمی، فضائیہ اور پی آئی اے کی مشترکہ کوششوں کو مربوط کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔
پاکستان آرمی کے میجر جنرل ایاز، ایئر فورس کے بیس کمانڈر ایئرمارشل فاروق اور پی آئی اے کے ڈپٹی ایم ڈی ایئروائس مارشل مبین رب کی مشترکہ نگرانی میں تلاش کا آپریشن شروع کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے ذریعے نومینزلینڈ میں پاکستانی ہیلی کاپٹر کی پرواز کی اجازت بھی حاصل کی گئی۔ پاکستانی حکومت نے بھارت سے رابطہ کرکے تلاش میں مدد کی اپیل کی۔ جنگ بندی لائن پر تعینات اقوام متحدہ کے اہلکار بھی تلاش کی کوششوں میں شامل تھے۔بھارت کی طرف سے 16 ہیلی کاپٹرز لائن آف کنٹرول کے اطراف میں ممکنہ ملبے کی تلاش میں پروازیں کرتے رہے۔
افغانستان میں نجیب حکومت نے اقوام متحدہ کے ذریعے رابطے کا کوئی جواب نہیں دیا۔ البتہ بھارت نے تلاش کے بعد اپنے علاقے میں ملبے کی عدم موجودگی سے آگاہ کیا۔
ایوی ایشن امور کے ماہر صحافی طاہر عمران نے اردو نیوز کی جانب سے جہاز کے اغوا یا ممکنہ تخریب کاری کے ذریعے تباہی کے امکانات کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ گلگت سے دونوں جہاز آگے پیچھے پرواز کر رہے تھے۔یہ ممکن نہیں کہ غلطی سے ایک جہاز راستہ بدل کر سرحد پار کر جائے اور مار گرایا جائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ گلگت سے اسلام آباد کا فضائی راستہ دریا کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا۔ اس زمانے میں اس علاقے میں کوئی ملٹری ایکٹیویٹی بھی نہیں تھی اور نہ ہی پاکستان نے سیاچن کے اطراف میں فائٹر جیٹ استعمال کیے تھے۔ اس لیے یہ کہنا بے بنیاد ہے کہ طیارہ مار گرایا گیا۔ اغوا کی بات تو اس لیے بھی بے بنیاد ہے کہ اگر ایسا ہوتا تو بعد میں کوئی مطالبہ سامنے آتا۔
پی آئی اے کے حکام نے طیارے کے چین یا افغانستان لے جانے کی افواہوں کی تردید کی تھی۔ ان کی طرف سے کہا گیا کہ جہاز میں اتنا ایندھن ہی نہیں تھا کہ اسے چین لے جایا جاتا اور نہ ہی طیارہ واخان کے بلند و بالا پہاڑوں کو عبور کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
ماہرین کا خیال تھا کہ تباہی کی صورت میں طیارے کا ملبہ نانگاپربت سے مظفرآباد کے درمیان گرنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
اس دشوار گزار علاقے میں زمینی تلاش کے لیے ایف سی کے ایک ہزار اہلکاروں کو وادیوں اور گھاٹیوں میں کھوج کا کام سونپا گیا۔ ریڈیو گلگت سے شینا اور بلتی زبانوں میں قرب و جوار کے مکینوں سے تلاش میں مدد کی اپیلیں بھی جاری ہوتی رہی۔
اسی دوران طیارے کے پیٹرو گلیشیر کی طرف جاتے دیکھے جانے کی اطلاعات نے تلاش کی ساری سرگرمیوں کو نانگاپربت پر مرکوز کر دیا۔
ان اطلاعات کا ذریعہ ایک برطانوی کوہ پیما مس گمین تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مقامی افراد کے ساتھ نانگاپربت کے قریب موجود تھیں جب انہوں نے ایک جہاز کو نیچی پرواز کرتے اور بادلوں میں گم ہوتے دیکھا۔ اس گواہی کے بعد پیٹرو گلیشیر تلاش کی سرگرمیوں کا مرکزی ہدف قرار پایا۔ اس دوران یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہی کہ طیارے نے پیٹرو گلیشیر پر کریش لینڈنگ کی ہے اور شاید مسافر زندہ مل جائیں۔
انتہائی بلندی اور برف کی غیر معمولی مقدار کی وجہ سے تلاش کا کام ممتاز کوہ پیما نذیر صابر اور پاکستان آرمی کے کرنل شیر خان کے حوالے کیا گیا۔
کرنل ریٹائرڈ شیر خان کا تعلق ہنزہ سے ہے وہ خود بھی ایک کوہ پیما رہ چکے ہیں۔ اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں انہوں نے ایک ماہ تک جاری رہنے والے سرچ آپریشن کی تفصیلات بیان کیں۔
’موسم اتنا خراب تھا کہ ہم سات دن تک علاقے میں پرواز کرنے کے قابل ہی نہ ہو سکے۔ اسی دوران تازہ برفباری نے علاقے میں طیارے کے ہونے کے نشانات بھی مٹا دیے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ موسم بہتر ہونے کے بعد ہم نے اس علاقے کے چپے چپے کو چھان مارا۔ ہیلی کاپٹر پر سینکڑوں پروازیں کیں۔ یہاں تک کے طیارے کے روٹ پر بھی تمام راستے کا فضائی جائزہ لیا۔
جب نانگاپربت کے علاقے میں طیارے کی موجودگی کا شبہ ظاہر کیا گیا تو ہم نے ارد گرد کے تمام گلیشیئرز پر اتر کر تلاش کرنے کی کوشش کی۔
انھوں نے طیارے کے اغوا یا تخریب کاری سے تباہی کو بےبنیاد مفروضہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جہاز کے لیے ایک روٹ مقرر تھا۔ موسم کی خرابی کی صورت میں متبادل راستے بھی طے شدہ ہوتے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنا چھوٹا طیارہ بلند و بالا پہاڑوں سے گزر کر کہیں اور چلا جائے۔
اس طیارے کی تلاش ملکی تاریخ کا سب سے بڑاسرچ آپریشن تھا جو وہ تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا۔ فضا اور زمین پہ بیک وقت ہزاروں لوگوں نے اس میں حصہ لیا۔ آخر میں ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بدقسمت طیارہ برف کے صحرا میں کہیں گم ہو گیا۔
کرنل شیر خان اور طاہر عمران بھی اسی خیال سے اتفاق کرتے ہیں۔
کرنل ریٹائرڈ شیر خان کے مطابق شاید نانگاپربت کے اطراف میں کسی برفانی گھاٹی کی اوٹ میں طیارہ گر گیا ہو۔ میرے خیال میں برف کے طوفان نے اس کی سطح کو ڈھانپ دیا اور ہم کوشش کے باوجود بھی اسے تلاش نہ کر سکے۔
طاہر عمران نے بتایا کہ خراب موسم نے طیارے کو تباہی سے دوچار کیا۔اس دور میں اتنے جدید ہیلی کاپٹر بھی نہ تھے جو خراب موسم میں تلاش کا کام کرتے۔جب تک بڑے پیمانے پر تلاش کا کام شروع ہوتا برف اتنی ہو چکی تھی کہ مشینی آلات سے بھی اس کا سراغ نہیں لگایا جاسکا۔
آج 32 برسوں بعد بھی ایرج بلگرامی اور مسعود ملک کی یادوں میں حادثے کے نقوش مٹ نہیں پائے۔
مسعود ملک کہتے ہیں کہ انسان کی موت کی تصدیق اور قبر کی موجودگی سے اس کی کیفیات اور ہوتی ہیں۔ مگر جب سوال کسی کے گم ہونے کا ہو تو ہمارے احساسات مختلف ہوتے ہیں۔میرے لیے اپنی بیوی اور بہن کے گم ہو جانے کے احساس کو بھولنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نےحادثے کے آٹھ سال بعد دوسری شادی کی۔
ایرج بلگرامی نے اپنی کیفیات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میرے والد نے کسی دور میں پی آئی اے کا 747 جمبو جٹ طیارہ اڑایا تھا۔ ان کے 27 برس بعد میں نے بھی اسی جہاز میں جب فلائنگ کی تو میرے احساسات میں اپنے والد کا تصور تازہ ہوگیا۔
بھارتی طیارے کے ملبے کے 23 برسوں بعد برف سے دریافت ہونے سمیت طویل مدت بعد طیاروں کے ملبے کی نشاندھی کی دیگر مثالیں موجود ہیں۔کرنل شیر خان پرامید ہیں کہ شاید ایک دن ایسا بھی ہو کہ پی کے 404 کی باقیات بھی کسی پہاڑ کے دامن سے دریافت ہو جائیں۔