Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

داخلے کی شرائط میں سختی کے بعد افغان باشندوں کی پاکستان آمد میں ’واضح کمی‘

ایک ہفتہ قبل تک اوسطاً 18 ہزار افراد پاکستان میں داخل ہو رہے تھے جن کی تعداد اب کم ہوکر 4 سے 5 ہزار تک آ گئی ہے۔(فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستانی فورسز کی جانب سے پابندیوں کے بعد چمن کے راستے افغانستان سے افغان باشندوں کی پاکستان میں داخلے کی شرح میں واضح کمی ہوگئی ہے۔
حکام نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ ایک ہفتہ قبل تک اوسطاً 18 ہزار افراد پاکستان میں داخل ہو رہے تھے جن کی تعداد اب کم ہوکر 4 سے 5 ہزار تک آ گئی ہے۔
سرحد پر تعینات لیویز اہلکار عجب خان کے مطابق قندھار پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے افغانستان سے لوگوں کی آمد میں اچانک اضافہ ہوا اور کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ دیکھا گیا۔
ان کے بقول پہلے تو زیادہ تر افغانستان کے جنوبی صوبوں قندھار، اورزگان، ہلمند، زابل اور غزنی کے لوگ پاکستان آتے تھے مگر طورخم سرحد بند ہونے کی وجہ سے کابل، ننگرہار، بلخ، لغمان، بدخشان، تخار، بامیان، دائیکنڈی اور ہرات جیسے علاقوں کے لوگوں نے بھی چمن سرحد کا رخ کیا۔
چمن میں تعینات ایک سکیورٹی عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 15 اگست سے 27 اگست تک روزانہ اوسطاً 18 ہزار افراد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ ان میں 5 سے 6 ہزار لوگ پاکستانی شناختی کارڈ اور باقی افغانی دستاویزات کے حامل تھے۔ 18 ہزار افراد میں اوسطاً 4500 خواتین اور 3 ہزار بچے بھی تھے۔
ان کے بقول کابل ایئر پورٹ پر رش، بد نظمی اور داخل ہونے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد بڑی تعداد میں دارالحکومت کابل خصوصاً شمالی اور ہزارہ اکثریتی علاقوں کے افغان باشندوں نے چمن سرحد کے راستے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی تاکہ وہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور غیرملکی سفارتخانوں تک رسائی حاصل کریں یا پھر بلوچستان سے ایران اور ترکی کے غیر قانونی و غیر روایتی راستوں کے ذریعے آگے یورپی اور مغربی ممالک تک پہنچ سکیں۔
چمن میں تعینات سکیورٹی عہدے دار کے مطابق 28 اگست سے طالبان اور پاکستانی حکام نے باہمی تعاون سے سرحد پر آمدورفت کنٹرول کرنا شروع کیا اور گزشتہ ایک ہفتے سے دونوں اطراف کے سرحدی شہروں کے رہائشیوں یا پھر شدید بیمار افراد کے علاوہ کسی کو پاکستان میں آنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

چمن میں تعینات سکیورٹی عہدے دار کے مطابق 28 اگست سے طالبان اور پاکستانی حکام نے باہمی تعاون سے سرحد پر آمدورفت کنٹرول کرنا شروع کیا۔ (فوٹو:اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے روزانہ 25 ہزار کے لگ بھگ افراد آتے جاتے تھے، ان میں اکثریت پاکستان آنے والوں کی ہوتی تھی مگر اب آنے والوں کی نسبت جانے والوں کی تعداد زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ پاکستان میں داخلے کے لیے شرائط سخت کر دی گئی ہیں۔
چمن سرحد پر تعینات مقامی لیویز اہلکار عجب خان نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ گزشتہ ایک ہفتے سے آمدروفت میں 70 سے 80 فیصد کمی آئی ہے کیونکہ افغانستان سے صرف افغان صوبہ قندھار کا تذکرہ رکھنے والے یا پھر پاکستانی شناختی کارڈ کے حامل افراد کو آنے دیا جا رہا ہے۔
تاہم قندھار کے ضلع میوند کے رہائشی سعید احمد نے بتایا کہ قندھار کا رہائشی ہونے ہونے کے باوجود انہیں پاکستانی فورسز داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہی تھی جس کے بعد انہوں نے علاقے کے ایک طالب رہنما کے ذریعے خصوصی اجازت نامہ حاصل کیا۔ سپین بولدک میں سرحد پر تعینات اس طالب رہنما نے انہیں اس اجازت نامے کے ساتھ تجارتی سامان پاکستان لانے والے ایک ٹرک میں سوار کرایا اس طرح وہ پاکستان میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔
انہوں نے بتایا کہ سرحد پر ہزاروں لوگ موجود تھے جنہیں طالبان تو آگے آنے دے رہے تھے مگر سرحد پر تعینات پاکستانی فورسز پاکستانی شناختی کارڈ کے حامل افراد کے علاوہ کسی کو اجازت نہیں دے رہے تھے۔ زیادہ رش کی وجہ سے پاکستانی فورسز ہجوم کے ایک حصے کو پاکستان میں آنے دے دیتے مگر چند سو قدم کے فاصلے پر پاکستانی حدود میں واقع دستاویزات کے جانچ پڑتال کرنے والے نادرا کاؤنٹر تک پہنچنے پر پاکستانی شناختی کارڈ نہ ہونے پر انہیں واپس افغانستان بھیج دیا جاتا۔
سکیورٹی عہدے دار نے اردو نیوز کو بتایا کہ پاکستانی فورسز ایسے افراد کو بھی پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہیں جن کے پاس اصل شناختی کارڈ نہیں یا پھر ان کے شناختی کارڈ کسی بھی وجہ سے نادرا نے بلاک کیے ہوئے ہیں۔
چمن کے مقامی صحافیوں کے مطابق افغانستان سے درجنوں خاندان چمن پہنچے ہیں جو شہر کے مختلف علاقوں میں کھلے آسمان تلے یا پھر خیموں میں رہائش پذیر ہیں مگر انتظامیہ مہاجرین کی آمد کی خبروں کی سرکاری طور پر تصدیق نہیں کر رہی۔
وزیرداخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ افغانستان سے آنے والوں میں سے اب تک کسی نے بطور مہاجر خود کو رجسٹرڈ نہیں کرایا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ چمن سرحد سے مزید کسی کو غیر قانونی طور پر پاکستان آنے نہیں دیا جائے گا، اس لیے پاکستان میں داخل ہونے والوں کے دستاویزات کی  سختی سے جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔
ضیاء لانگو کے مطابق سرحد پر تقریباً 14 ہزار ان مزدوروں (مقامی زبان میں لغڑیوں) کی ہیں جو سرحد پر سامان لاتے اور لے جاتے ہیں ۔اس کے علاوہ 7 سے 8 ہزار وہ تاجر بھی روزانہ کی بنیاد پر آمدورفت کرتے ہیں جن کے گھر پاکستان میں ہیں مگر وہ کاروبار افغانستان میں کرتے ہیں۔

افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والوں کی بڑی تعداد کوئٹہ کا رخ کرتی ہے جہاں افغان مہاجرین کی ایک بڑی آبادی کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ اور رہائش کی نسبتاً بہتر سہولیات موجود ہیں۔(فوٹو: اے ایف پی)

چمن چیمبر آف کامرس کے صدر جلات خان کے مطابق افغانستان میں حالیہ پیش رفت کے بعد کاروباری سرگرمیوں پر بڑا اثر پڑا ہے۔ غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں کم ہوئی ہیں۔ ان کی دوبارہ معمول کے مطابق بحالی ہونے میں وقت لگے گا۔
افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والوں میں سے بڑی تعداد 120 کلومیٹر دور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا رخ کرتی ہے جہاں افغان مہاجرین کی ایک بڑی آبادی کے ساتھ ساتھ علاج معالجہ اور رہائش کی نسبتاً بہتر سہولیات موجود ہیں۔
افغان صوبہ ہرات کے رہائشی محمد اکبر نے بتایا کہ وہ بڑی مشکل سے اپنے بیمار والد کو سرحد عبور کرانے میں کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ افغان حدود میں سرحد پر ہزاروں لوگوں کا ہجوم موجود تھا جس میں خواتین اور بچے بھی تھے۔ پاکستانی فورسز صرف شناختی کارڈ کے حامل افراد یا شدید بیمار لوگوں کو اندر آنے دے رہے تھے۔
کوئٹہ اور سرحدی شہر چمن کے درمیان ٹیکسی چلانے والے دین محمد نے بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے افغانستان سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ آنا شروع ہوگئے کہ ٹیکسیاں کم پڑ گئیں اور لوگوں نے اپنی ذاتی گاڑیوں کو ٹیکسی بنا کر کمانا شروع کر دیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’ٹیکسی والے پہلے 500 سے 600 روپے فی سواری کرایہ لیتے تھے۔ انہوں نے 1000، 1200 حتیٰ کہ 1500 روپے تک کرایہ لینا شروع کر دیا۔ اسی طرح چمن سے کوئٹہ تک راستے میں لیویز، پولیس اور ایف سی نے اپنی ختم کی گئیں چیک پوسٹیں دوبارہ بحال کر دیں اور ان چیک پوسٹوں پر انہوں نے افغانستان سے آنے والے افراد سے رشوت لینا شروع کر دی۔‘
دین محمد کے مطابق اب کئی دنوں سے سواریاں بہت کم ہوگئی ہیں  کیونکہ افغانوں کو سرحد عبور کر کے آنے نہیں دیا جا رہا۔ جو لوگ آ رہے ہیں ان میں زیادہ تر مریض ہیں۔

 ٹیکسی چلانے والے دین محمد نے بتایا کہ ایک ہفتہ پہلے افغانستان سے اتنی بڑی تعداد میں لوگ آنا شروع ہوگئے کہ ٹیکسیاں کم پڑ گئیں.(فوٹو: اے ایف پی)

چمن سرحد سے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
پاکستان سے افغانستان واپس جانے والوں میں افغان صوبہ غزنی کے علاقے گیلان کے رہائشی عبدالولی نے بتایا کہ ’میں 10 سال بعد واپس افغانستان جا رہا ہوں کیونکہ وہاں طالبان کی حکومت آ گئی ہےاور ہمیں تنگ کرنے والوں کی حکومت چلی گئی ہے۔‘
عبدالولی کے مطابق ’میرا ایک بھائی طالب جنگجو تھا جو پانچ سال تک افغان حکومت اور امریکی فورسز کے خلاف لڑا اور آخر کار ایک جھڑپ میں اس کی موت ہو گئی۔‘
انہوں نے بتایا کہ طالب جنگجو کا بھائی ہونے کی وجہ سے مجھے اور باقی گھر والوں کو افغان فورسز اور ’اربکی ‘ کے نام سے افغان حکومت کی حامی فورس بہت تنگ کرتی تھی، اس لئے  ہم مجبوراً پاکستان آ گئے اور کوئٹہ کے علاقے کچلاک میں کرایہ کا مکان لے کر رہنا شروع کر دیا۔‘
عبدالولی نے بتایا کہ طویل عرصے بعد وطن واپسی پر وہ بے حد خوش ہیں اور پرامید ہیں کہ اب کبھی دوبارہ جنگ نہیں ہو گی۔

شیئر: