Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گوانتاناموبے کے’طالبان فائیو‘ میں سے چار اب وزیر کے عہدے پر

طالبان نے افغانستان کی عبوری حکومت میں بدنام زمانہ امریکی جیل گوانتاناموبے میں طویل عرصہ قید کاٹنے والے اپنے چار رہنماؤں کو بھی اہم عہدے دیے ہیں۔
طالبان ترجمان کے مطابق سابق گوانتاناموبے قیدی ملا عبدالحق وثیق کو نئی افغان حکومت میں انٹیلی جنس سربراہ، خیر اللہ خیر خواہ کو وزارت اطلاعات و ثقافت، ملا نور اللہ نوری کو وزیر سرحدی و قبائلی امور اور ملا محمد فاضل کو نائب وزیر دفاع مقرر کیا گیا ہے۔
یہ سابق قیدی 1996 سے 2001 تک طالبان کے پہلے دور حکومت میں بھی اعلیٰ عہدوں پر موجود تھے۔ ان میں سے ملا محمد فاضل اور ملا عبدالحق واثق کو دوبارہ انہی محکموں اور عہدوں کی ذمہ داری دی گئی ہے جن پر وہ دو دہائی قبل بھی فائز رہے۔
چاروں طالبان رہنما اور ان کے ایک اور ساتھی محمد نبی عمری وہ پانچ قیدی تھے جنہیں جون 2014 میں اوباما انتظامیہ نے ایک امریکی فوجی اہلکار سارجنٹ بوبرگڈال کی رہائی کے بدلے رہا کیا اس لیے انہیں ’طالبان فائیو‘ کے نام سے بھی پہنچانا جاتا ہے۔
سارجنٹ بوبرگڈال کو 2009 میں افغانستان کے مشرقی صوبہ پکتیکا میں ایک چیک پوسٹ سے طالبان کے حقانی نیٹ ورک نے اغوا کیا تھا۔
پانچوں طالبان رہنماؤں کو سال 2001 اور 2002 کے دوران پاکستان اور افغانستان کے مختلف شہروں سے گرفتار کر کے گوانتاناموبے منتقل کیا گیا تھا جہاں انہوں نے 12 سے 13 سال گزارے۔ جون 2014 میں رہائی کے بعد بھی یہ پانچوں طالبان رہنما قطر میں امریکی اور قطری حکام کی نگرانی میں رہے اور ان پر سفری پابندیاں بھی رہیں۔
امریکی انٹیلی جنس نے انہیں طالبان کے سخت گیر رہنما اور امریکا و اتحادی فورسز کے لیے انتہائی خطرہ قرار دیا تھا اور ان کی رہائی کی مخالفت بھی کی تھی۔
سنہ 2019 کے اوائل میں دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کا آغاز ہوا تو طالبان نے انہیں اپنی مذاکراتی ٹیم کا بھی حصہ بنایا۔
سابق قیدی امریکی سفارت کاروں اور جرنیلوں کےآمنے سامنے مذاکرات کی میز پر بیٹھے تو دنیا بھر میں اس پہلو کو دلچسپی سے دیکھا گیا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ طالبان کے قطر سیاسی دفتر کے سربراہ و نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر خود بھی پاکستان میں طویل عرصہ قید رہے۔
دو دہائیوں کے دوران قید رہنے والے سابق گوانتاناموبے قیدیوں کے بارے میں طالبان قیادت کہہ چکی ہے کہ انہوں نے تحریک کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور یہ سب تحریک کے بانی ملا محمد عمر کے قابل اعتماد دوست تھے۔ قید ہی شاید ان کے دوبارہ اہم عہدوں پر انتخاب کی وجہ بنی۔

سارجنٹ بوبرگڈال کو 2009 میں افغانستان کے مشرقی صوبہ پکتیکا میں ایک چیک پوسٹ سے طالبان کے حقانی نیٹ ورک نے اغوا کیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

عبدالحق وثیق

50 سالہ عبدالحق وثیق کا تعلق افغانستان کے صوبہ غزنی سے بتایا جاتا ہے۔ وہ طالبان کے پہلے دور حکومت میں ڈپٹی انٹیلی جنس چیف تھے، اب عبوری حکومت میں انہیں مزید ترقی دے کر انٹیلی جنس چیف بنا دیا گیا ہے۔
عبدالحق وثیق نے دینی تعلیم پاک افغان سرحد پر خیبر پاس کے قریب اور کوئٹہ میں ایک دینی مدرسے سے حاصل کی۔
غزنی میں امام مسجد کے فرائض انجام دینے والے عبدالحق وثیق طالبان کے پہلے دور حکومت میں انٹیلی جنس چیف قاری احمد اللہ کے ذریعے تنظیم میں شامل ہوئے اور پھر مختلف عہدوں پر کام کرنے کے بعد طالبان کے خفیہ ادارے کا حصہ بنے۔ انہیں نومبر 2001 میں غزنی سے امریکی فورسز نے گرفتار کیا تھا۔

خیر اللہ خیرخواہ

وزیر اطلاعات و ثقافت مقرر ہونے والے خیر اللہ سید ولی خیرخواہ پہلے بھی طالبان کے ترجمان کے طور پر کام کر چکے ہیں۔
خیرخواہ پاکستان میں پناہ گزین کی حیثیت سے بھی رہے۔ امریکی محکمہ دفاع کی دستاویزات کے مطابق انہیں فروری 2002 میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں انہیں کوئٹہ میں امریکی فورسز کے حوالے کیا گیا جو انہیں گوانتاناموبے جیل لے گئیں۔
54 سالہ خیر خواہ قندھار کے پشتون پوپلزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے طالبان کے اولین ارکان میں شمار ہوتے ہیں۔ وہ 1995 سے 1996 تک طالبان ترجمان، اس کے بعد اکتوبر 1999 تک وزیر داخلہ اور 1999 سے دسمبر 2001 تک صوبہ ہرات کے گورنر جیسے اہم عہدوں پر رہے۔

وزیر اطلاعات مقرر ہونے والے خیر اللہ سید ولی خیرخواہ طالبان کے ترجمان کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی وزارت دفاع کے جوائنٹ ٹاسک فورس کی دستاویزات کے مطابق ترجمان کی حیثیت سے خیر خواہ ہرات سے پاکستانی سرحدی شہر چمن تک باقاعدگی سے آتے تھے تاکہ اپنے بیانات میڈیا میں شائع اور نشر کرا سکے۔
ملا خیر خواہ حامد کرزئی کے قریبی دوست سمجھے جاتے ہیں۔ کرزئی سے ان کے تعلقات پر طالبان سربراہ ملا محمد عمر نے اعتراض بھی کیا تھا۔
2011 میں افغان صدر حامد کرزئی نے خیر اللہ خیر خواہ کی رہائی کی درخواست کی تھی تاہم امریکی حکام نے تب یہ درخواست رد کر دی تھی۔

ملا فاضل مظلوم

افغانستان کے جنوبی صوبے اورزگان سے تعلق رکھنے والے ملا فاضل مظلوم طالبان کے پہلے دور حکومت میں نائب وزیر دفاع اور فوجی سربراہ تھے۔
نئی عبوری حکومت میں انہیں دوبارہ نائب وزیر دفاع کا عہدہ دیا گیا ہے۔ وکی لیکس کی جانب سے جاری کی گئیں گوانتاناموبے سے متعلق امریکی دستاویزات میں ان پر اقلیتی گروہ کے افراد کی بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری کا الزام لگایا گیا۔
ملا فاضل سویت افواج کے قبضے کے دوران پاکستان میں پناہ گزین رہے۔ انہوں نے دینی تعلیم کوئٹہ کے ایک مدرسے سے حاصل کی ہے۔
ملا فاضل 1995 میں قندھار میں بطور سپاہی طالبان میں بھرتی ہوئے۔ بعد ازاں اہم فوجی عہدوں پر رہے۔

پانچوں طالبان رہنماؤں کو 2001 اور 2002 کے دوران گرفتار کر کے گوانتاناموبے منتقل کیا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

وہ تخار میں شمالی اتحاد سے لڑائیوں میں بھی پیش پیش رہے۔ نومبر 2001 میں ملا فاضل نے شمالی افغانستان میں طاقتور ازبک جنرل عبدالرشید دوستم کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے جن کی ملیشیا نے امریکی فورسز کے ساتھ اتحاد کیا تھا۔
جنرل دوستم نے انہیں ہزاروں دیگر طالبان قیدیوں کے ساتھ رکھا جن میں سے بیشتر کو بعد ازاں قتل کردیا گیا۔ تاہم ملا فاضل کو پہلے شبرغان کی جیل بھیجا گیا اور پھر انہیں امریکا کے حوالے کر دیا گیا۔

ملا نور اللہ نوری

ملا نور اللہ نوری کا تعلق جنوبی افغان صوبہ زابل کے علاقے شاہ جوئی سے ہے۔ انہوں نے 1999 میں جلال آباد میں گورنر مولوی کبیر کے محافظ کے طور پر طالبان میں شمولیت اختیار کی اور پھر ترقی کرتے کرتے بلخ اور لغمان صوبوں کے لیے طالبان کے گورنر جیسے عہدے پر پہنچے۔
طالبان کے پہلے دور میں ملا محمد عمر نے انہیں شمالی افغانستان میں طالبان کا کنٹرول بڑھانے کی ذمہ داری دی تھی تاہم شمالی اتحاد اور دوستم ملیشیا کے ساتھ طالبان کی جھڑپوں کے بعد ملا نور اللہ نوری نے جنرل دوستم کے سامنے سرنڈر کیا جنہوں نے بعد ازاں انہیں امریکا کے حوالے کیا۔
امریکا نے انہیں جنوری 2002 میں گوانتانا موبے منتقل کر دیا تھا۔

شیئر: