پاکستان کی وفاقی حکومت نے ٹیکس قوانین میں ترمیم سے متعلق تیسرا آرڈینینس جاری کیا ہے جس کے تحت کسٹم ایکٹ 1969، جنرل سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 اور انکم ٹیکس آرڈینینس 2001 کی مختلف شقوں میں ترمیم کی گئی ہے۔
ایف بی آر کے مطابق اس آرڈینینس کا بنیادی مقصد ٹیکس نیٹ میں وسعت لانا اور ٹیکس چوری کرنے والوں کو غیر روایتی طریقوں سے پکڑنا ہے۔
اس آرڈینینس کے ذریعے صرف نان فائلر ہی نہیں بلکہ ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والے عام شہری، پروفیشنلز اور ریٹیلرز کے خلاف بھی کارروائی کی جائے سکے گی۔
دستاویزی معیشت کے لیے اقدامات
معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے حکومت نے سیلز ٹیکس ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے ایف بی آر کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ بجلی اور گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کو یہ احکامات دے سکے کہ وہ کسی بھی فرد جو ریٹیلر ہے اور سیلز ٹیکس کے لیے اور ایف بی آر کے کمپیوٹرائزڈ سسٹم کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے، اس کے کنکشن منقطع کر دیں۔
مزید پڑھیں
-
کمیٹی ڈل گئی، بینک میں جمع ہوگئی، کہں ٹیکس نوٹس تو نہیں آئے گا؟Node ID: 565826
-
حکومت کا کئی اشیا پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ واپس لینے کا اعلانNode ID: 577286
-
پانچ منٹ سے طویل کال پر ٹیکس: ’عاشقوں کے ہاں صف ماتم‘Node ID: 577366
رجسٹریشن کرا لینے کی صورت میں ایف بی آر تحریری طور پر کنکشن بحالی کے احکامات جاری کرے گا۔
جو شخص بھی سیلز ٹیکس نادہندہ ہوگا اسے پہلی بار پانچ لاکھ، دوسری بار دس لاکھ، تیسری بار 20 لاکھ اور چوتھی بار 30 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔ ہر بار کے درمیان 15 دن کا وقت ہوگا۔
اس کے باوجود سیلز ٹیکس اور کمپیوٹرائزڈ نظام کے ساتھ رجسڑ نہ ہونے کی صورت میں ریٹیلر کے کاروبار کو سیل کر دیا جائے گا۔
دوسری بار تک رجسٹرڈ ہو جانے کی صورت میں کمشنر پہلی بار کا جرمانہ معاف کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔
اسی طرح آن لائن اشیا فروخت کرنے والوں کو مارکیٹ پلیس قرار دے کر ودہولڈنگ ٹیکس جمع کرنے کا ذمہ دار قرار دے دیا گیا ہے۔
آن لائن اشیا فروخت کرنے والوں کو اپنا سسٹم ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ کرانا ہوگا اور جب بھی کوئی چیز فروخت کریں گے تو اس کی رسید مشین سے پرنٹ کرنا ہوگی تاکہ حقیقی فروخت کا ریکارڈ مرتب ہو سکے۔
تاجر برادری نے اس ترمیم اور آرڈنینیس کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کی موجودگی میں غیر آئینی آرڈینینیس جاری کرنا بند کرے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/36496/2021/afp_bank.jpg)
اردو نیوز سے گفتگو میں آل پاکستان مرکزی تنظیم تاجران کے صدر کاشف چوہدری نے کہا کہ ’تاجر کمرشل ریٹس پر بجلی اور گیس خریدتے اور استعمال کرتے ہیں۔ آئین کسی کو حق نہیں دیتا کہ وہ ان کے کنکشن کاٹے۔ معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے حوالے سے حکومت تاجروں کے ساتھ بیٹھے اور بات کرے۔ حکومت کی جانب سے ہر پندرہ دن بعد جرمانے میں اضافے اور کاروبار سیل کرنے جیسے اقدامات کے خلاف جلد ہی متفقہ لائحہ عمل اپنائیں گے۔‘
ٹیکس ریٹرن فائلنگ بڑھانے کے لیے اختیارات
انکم ٹیکس آرڈینیس 2001 میں متعدد ترامیم کے ذریعے ایف بی آر نے یہ اختیار بھی حاصل کرلیا ہے کہ اب ایف بی آر ہر اس شخص جس کی آمدن ٹیکس کی شرح سے زائد ہے، لیکن اس کا نام ایکٹو ٹیکس لسٹ میں شامل نہیں اس کی موبائل فون سم، بجلی اور گیس کا کنکشن کاٹنے کا حکم دے سکے گا۔
تاہم ایسا کرنے سے قبل متعلقہ فرد کو نوٹس جاری کرنا ہوگا اور اس کے باوجود بھی وہ ریٹرن فائل نہیں کرتا تو اس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
اسی طرح اس ترمیمی آرڈینینس میں ایف بی آر نے نادرا کے ساتھ ڈیٹا شیئرنگ کا نظام متعارف کرایا جس کے تحت نادرا خود یا ایف بی آر کی درخواست پر کسی بھی فرد کے بارے میں معلومات فراہم کرے گا۔
یہ معلومات نادرا اپنے آرٹیفیشل انٹیلی جینس نظام کے ذریعے اکٹھی کرے گا جس میں متعلہ فرد کی خریداری کی رسیدیں، اثاثے جات، آمدن، اخراجات اور دیگر معلومات موجود ہوں گی۔
اس حوالے سے چیئرمین نادرا طارق ملک نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’نئے چئیرمین ایف بی آر کے ساتھ اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہے۔ ہم نادرا کے ڈیٹا بیس اور آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ذریعے ٹیکس نیٹ بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ اس حوالے سے قانون بنانا ضروری تھا اس آرڈینینس کے ذریعے قانونی تقاضا بھی پورا ہوگیا ہے اور نادرا اس سلسلے میں ایف بی آر سے بھر پور معاونت کرے گا۔‘
![](/sites/default/files/pictures/September/36496/2021/567885_5018592_tns.jpg)