امریکہ کی بے وفائی، فرانس آخر اتنے غصے میں کیوں ہے؟
امریکہ کی بے وفائی، فرانس آخر اتنے غصے میں کیوں ہے؟
اتوار 19 ستمبر 2021 12:37
فرانس نے امریکہ میں اپنے سفیر کو مشاورت کے لیے واپس بلا لیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ کے مابین نئے سہ فریقی سکیورٹی معاہدے پر فرانس کا ردعمل ٹرمپ کی صدارت کے دوران ایک امریکی اخبار کی طرف سے شائع ہونے والے ایک طاقتور کارٹون کو ذہن میں لاتا ہے، جب امریکی صدر کانگریس سے بچنے کے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے حکمرانی کر رہے تھے۔
عرب نیوز کے مطابق بفیلو نیوز میں شائع ہونے والے کارٹون میں مجسمہ آزادی، جو فرانس کے عوام کی جانب سے امریکہ کو دیا گیا تحفہ ہے، کو دکھایا گیا، جس کی پیٹھ میں خنجر نہیں بلکہ صدر کا قلم گھونپا گیا۔
فرانسیسی وزیر خارجہ یان ویس لی ڈرین نے جمعے کو نئے انڈو پیسفک سکیورٹی اتحاد، جسے آکوس کا نام دیا گیا ہے، کو 'پیٹھ میں چھرا' اور اس طرح کی دھوکہ دہی سے تشبیہ دی جو عموماً 'اتحادی ایک دوسرے کے ساتھ نہیں کرتے۔'
فرانسیسی وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ 'آسٹریلیا اور امریکہ کی طرف سے 15 ستمبر کو کیے گئے اعلانات کی غیر معمولی سنجیدگی کی وجہ سے، پیرس فوری طور پر امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیروں کو مشاورت کے لیے واپس بلا رہا ہے۔
معاہدے پر فرانس کا رنج اس کے سٹریٹجک اور مالی مضمرات دونوں سے متعلق ہے۔
پیرس کو نہ صرف انڈو پیسیفک سٹریٹجی سے باہر کیا گیا بلکہ وہ جوہری آبدوزوں کی تیاری کے لیے آسٹریلیا کے ساتھ بہت زیادہ منافع بخش معاہدے سے بھی محروم ہو گیا۔
آسٹریلیا نے فرانس کی بجائے امریکی ٹیکنالوجی کا انتخاب کیا ہے۔
امریکہ کی ’ایک اور سٹریٹجک غلطی؟‘
امریکی صدر جو بائیڈن، برطانوی وزیراعظم بورس جانسن اور آسٹریلوی وزیراعظم سکاٹ موریسن کی ورچوئل میٹنگ کے دوران اعلان کردہ نئے اتحاد نے فرانس کو مزید اشتعال دلایا۔
اگرچہ واشنگٹن میں بہت سے مبصرین نے اس معاہدے کو چین کے لیے ایک واضح چیلنج کے طور پر سراہا، لیکن دوسروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ معاہدہ خطے میں ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کا آغاز ہے یا امریکہ کی افغانستان سے انخلا کی ناکامی کے بعد ایک اور سٹریٹجک غلطی ہے۔
عہدہ سنبھالنے کے بعد سے جو بائیڈن نے اپنے پرانے یورپی اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کے سرد تعلقات کو دوبارہ ترتیب دینے کی کوشش کی ہے، لیکن آکوس کے اس اقدام کا الٹا اثر پڑا ہے، جس سے فرانس اور وسیع تر پیمانے پر یورپی یونین اس سے الگ کر دے گا۔
اس نے امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں کے درمیان چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کس طرح سنبھالنا ہے، اس کے بارے میں ممکنہ اختلاف کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔
بیجنگ کے ساتھ مقابلہ کرنے یا تعاون کرنے کے بارے میں مختلف پوزیشنز، جیسا کہ نیو یارک ٹائمز نے حال ہی میں کہا ہے کہ 'عالمی سٹریٹجک نقشے کو دوبارہ بنائیں۔'
’امریکہ فرانس تعلقات میں دیرپا رکاوٹ‘
اٹلانٹک کونسل میں یورپ سینٹر کے ڈائریکٹر بینجمن حداد نے لکھا ہے کہ 'آکوس معاہدے کا اس سے زیادہ نازک وقت نہیں ہو سکتا تھا، یہ انڈو پیسفک میں یورپی حکمت عملی کی اشاعت کے موقع پر کیا گیا اور اس میں پیرس خطے میں یورپی یونین کے اہم سٹریٹجک کردار کے طور پر ابھرا ہے۔'
انہوں نے پیش گوئی کی کہ یہ پیش رفت 'خطے میں ٹرانس اٹلانٹک حکمت عملی کو دھچکہ دے گی اور امریکہ فرانس تعلقات میں دیرپا رکاوٹ پیدا کرے گی۔'
اگلے ہفتے وائٹ ہاوس چار رکنی اتحاد کے رہنماؤں کے سکیورٹی ڈائیلاگ کی میزبانی کرے گا جو امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور انڈیا کا سٹریٹجک اتحاد ہے اور 'دی کواڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ جو بائیڈن کی چین پالیسی کا ایک اور اہم ستون ہے۔
بیجنگ کواڈ اور نئے آکوس کو 'سرد جنگ کے نظریے پر مبنی گروہ‘ کے طور پر دیکھتا ہے۔
اس دوران چین کے علاقائی حریف انڈیا نے توقع کے مطابق نئے اتحاد کا خیرمقدم کیا ہے۔
اگرچہ بائیڈن، جانسن اور سکاٹ نے اپنے آکوس کے اعلان میں چین کا ذکر نہیں کیا، لیکن امریکہ میں اس معاہدے کو صدر کی امریکی قومی سلامتی پر 'دوبارہ سے توجہ دینے' کی پالیسی اور اور چین کے خطرے کی طرف اپنی عسکری پوزیشن کو تبدیل کرنے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
’معاہدے کی قیمت فرانس امریکہ تعلقات‘
بائیڈن انتظامیہ نے افغانستان سے جلد بازی میں انخلا کے فیصلے کو درست ثابت کرنے کے لیے وسائل کو چین سے خطرے کے دفاع کی جانب موڑنے کی ضرورت دکھائی۔ ناقدین بائیڈن کی ٹیم کو شک کا فائدہ دیتے اگر انڈو پیسیفک سٹریٹیجک آرکٹیکچر فرانس امریکہ تعلقات کی قیمت پر نہ ہوتا۔
فرانس کے پاس ناراض ہونے کی وجوہات ہیں۔ آسٹریلیا کے ساتھ امریکہ کی نئی ڈیل جس کو امریکی میڈیا نے ’تاریخی‘ قرار دیا ہے اور جس کے تحت مغربی اتحادی چین کی طاقت کا توڑ کرنا چاہتے ہیں، اس سے فرانس کے اربوں ڈالر کے آبدوزوں کے معاہدے کا خاتمہ ہوا ہے۔
امریکی میڈیا نے آکوس معاہدے پر فرانس کے ردعمل کو زیادہ اہمیت نہیں دی اور یہ نہیں بتایا کہ اس سے امریکہ کے اتحادیوں کو کیا پیغام دیا گیا ہے۔ اس کے بجائے تمام تر توجہ اس بات پر دی گئی کہ یہ تاریخی ہے کہ اس کے ذریعے امریکہ نیوکلیئر ٹیکنالوجی آسٹریلیا کو دینے کا فیصلہ کیا گیا۔
کیا فرانس اب کوئی نیا اتحاد تلاش کرے گا؟
خیال رہے کہ 1958 میں ہونے والے امریکہ اور برطانیہ کے باہمی دفاعی معاہدے کے بعد امریکہ نے پہلی بار کے بعد کسی بھی اتحادی کے ساتھ اس قسم کی ٹیکنالوجی دینے کا معاہدہ کیا ہے۔
اٹلانٹک کونسل میں سکو کرافٹ سینٹر فار اسٹریٹیجی اینڈ سکیورٹی کے ڈائریکٹر بیری پاویل نے اس نئے معاہدے اور آئزن ہاور انتظامیہ کی برطانیہ کے ساتھ ایٹمی ٹیکنالوجی کے اشتراک کی پالیسی کے مابین ایک متوازی نقشہ کھینچا، اس پرانے معائدے نے فارنس کے اس وقت کے صدر چارلس ڈیگال کو ’اینگلو سیکسن ایٹمی تعاون اور فرانس کو اپنی جوہری صلاحیتوں کو فروغ دینے پر مجبور کیا تھا۔
ڈیگال ہی کی طرح فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اس نئے معاہدے کو دانستہ طور پر پہچائے گئے ’اینگلو سیکسن سنب‘ سے تعبیر کر سکتے ہیں جو انڈو پیسیفک میں اس کے سٹریٹجک موقف کو کمزور کرتا ہے۔
فرانس اس خطے کا معمولی کھلاڑی نہیں ہے۔ یہ واحد یورپی ملک ہے جس کی انڈو پیسفک میں بڑی موجودگی ہے اور وہاں فرانس کے لگ بھگ 70 ہزار فوجی تعینات ہیں۔
فرانس کو نئے سٹریٹجک بندوبست سے باہر کرنا پیرس اور میکرون جنہوں نے بائیڈن کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینے پر فخر کیا تھا، دونوں کے لیے ایک دھچکا ہے اور یہ فرانسیسی صدر کو دوسرے ممالک کے ساتھ اتحاد کی تلاش پر مجبور کر سکتا ہے جو اینگلو سیکسن سہہ فریقی اتحاد کے لیے کسی بھی غیرمتوقع نتیجے کا باعث بن سکتا ہے۔
’دھوکہ دہی سمجھا جانے والا یہ اقدام زیادہ ظالمانہ ہے‘
بہت سے مبصرین نے بائیڈن انتظامیہ سے افغانستان سے افراتفری والے انخلا کے بعد مزید کی توقع کی تھی لیکن اس سے امریکہ کے عالمی موقف اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو نقصان پہنچا ہے، اب یہ نیا سہ فریقی معائدہ بھی ویسا ہی لگتا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، ایک فرانکوفون ہیں جو پیرس میں پلے بڑھے اور فرانسیسیوں کے ساتھ طویل عرصے سے اچھے تعلقات سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔ ان کے اس عہدے پر ہونے سے دونوں حکومتوں کے درمیان تعلقات کے پھلنے پھولنے کی امید پیدا ہوئی تھی لیکن اس کے باوجود اب یہ تعلقات زوال کی طرف جا رہے ہیں۔
اگر کوئی اس پہلو پر غور کرے کہ امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران اپنے فرانس کے تعلقات سے کتنا فائدہ اٹھایا ہے تو دھوکہ دہی سمجھا جانے والا یہ اقدام اس وقت زیادہ ظالمانہ لگتا ہے۔ خاص طور پر افریقہ میں یہ فرانسیسی افواج ہی ہیں جنہوں نے داعش سے وابستہ افراد کے خلاف آپریشن کی قیادت کی ہے۔ ابھی اسی ہفتے فرانس کے صدر میکرون نے صحاریٰ میں داعش کے رہنما عدنان ابو ولید الصحراوی، جس پر چار امریکیوں کے قتل کا الزام تھا کی ہلاکت کا اعلان کیا تھا۔
’واشنگٹن دوستوں کی کمی محسوس کر سکتا ہے‘
واشنگٹن میں خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والے اس وقت پیرس کے ساتھ پھوٹ کو ’جوڑ توڑ کی غلطی سمجھتے ہیں نہ کہ سٹریٹجک غلطی‘۔ لیکن فرانسیسی اس سے اختلاف کرتے ہیں۔
جب بلنکن نے حال ہی میں فرانس کو انڈو پیسیفک میں ’اہم پارٹنر‘ قرار دیتے ہوئے ایک ٹویٹ کیا تو واشنگٹن میں سابق فرانسیسی سفیر جیرارڈ ارود نے طنزیہ انداز میں جواب دیا: ’ہم بہت متاثر ہوئے ہیں۔‘
امریکہ اگر انڈو پیسیفک میں سٹریٹجک خدوخال دوبارہ تشکیل دینے کا ارادہ رکھتا ہے، تو یہ دانشمندی ہو گی کہ اپنی پرانی دوستیوں کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ بلاشبہ اگر امریکہ کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑا ہونے والا نہیں سمجھا جاتا تو اس صورت میں واشنگٹن اپنے دوستوں کی کمی محسوس کر سکتا ہے۔
بائیڈن فرانسیسی صدر سے فون پر بات کریں گے
دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی حکومت کے ترجمان نے اتوار کو بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخوان آبدوزوں کے کنڑیکٹ پر جاری شدید تناؤ سے متعلق آئندہ دنوں میں فون پر بات کریں گے۔
یہ اعلان فرانس کی جانب سے واشنگٹن اور کینبرا میں اپنے سفیروں کو واپس بلانے کے ایک دن بعد کیا گیا ہے۔ فرانس امریکہ اور آسٹریلیا کے خفیہ مذاکرات پر ناخوش تھا جس کی وجہ سے فرانسیسی آبدوزوں کے کئی ارب مالیت کے آسٹریلوی آرڈر منسوخ ہوئے۔
ترجمان گیبریل اٹل نے بی ایف ایم نیوز چینل کو بتایا کہ ’آنے والے دنوں میں فون پر تبادلہ خیال ہو گا‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس بات چیت کی درخواست بائیڈن کی طرف سے آئی تھی۔
میکخوان امریکی صدر سے ’یو ایس یو کے اے یو ایس‘ معاہدے کے متعلق ’وضاحت‘ مانگیں گے جس کے ایک حصے کے طور پر آسٹریلیا امریکی ایٹمی طاقت سے چلنے والی آبدوزیں خریدنے والا ہے اور وہ ڈیزل الیکٹرک فرانسیسی آبدوزوں کا بڑا معاہدہ منسوخ کر رہا ہے۔