ہر اہل افغان مہاجر کو قبول نہیں کیا جا سکتا: برطانوی وزیر دفاع
نئی سکیم کے تحت 20 ہزار افغان پناہ گزینوں کو برطانیہ میں داخلے کی اجازت ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
برطانیہ کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ’20 سالہ جنگ کے دوران فوج کی مدد کرنے والے ہر افغان شہری کو بطور مہاجر قبول نہیں کر سکتے۔‘
عرب نیوز کے مطابق وزیر دفاع جیمز ہیپی کا کہنا ہے کہ ’برطانیہ کی افغانوں کے لیے متعارف کرائی گئی ’نقل مکانی اور معاونتی‘ (اے آر اے پی) پالیسی کے تحت ہر افغان کی زندگی کو خطرہ قرار دیتے ہوئے مدد نہیں کی جا سکتی۔‘
پارلیمان میں رکن کلیو ایفرڈ کے بیان پر جواب دیتے ہوئے وزیر دفاع نے کہا کہ ’انہیں معلوم ہے کہ افغانستان میں برطانیہ کے آپریشن کے دوران لوگوں نے مدد کی اور جو اس سکیم کے اہل بھی ہیں، لیکن پھر بھی انہیں تسلیم نہیں کیا گیا۔‘
خیال رہے کہ برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے رواں ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ برطانیہ ’اس ملک کے ان افغان دوستوں کی مدد کرے گا جنہوں نے رہنمائی کی، ترجمہ کیا اور ہمارے فوجیوں کے ساتھ فرائض انجام دیے۔ انہوں نے اپنی ہمت اور وفاداری کا بلاشبہ ثبوت دیا۔‘
وزیراعظم کے بیان کے برعکس وزیر دفاع جیمز ہیپی کا کہنا تھا کہ ’مجھے معلوم ہے کہ یہ بہت سے ارکان پارلیمان کے لیے مایوس کن ہے جو شدت سے افغانستان میں رہنے والوں کی معاونت کرنا چاہتے ہیں اور ان کی جو خطرے میں ہیں، لیکن ہمارے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہر ایک شخص کو باہر نکالا جاسکے جس کا برطانوی فوج کے ساتھ تعلق رہا ہے۔‘
وزیر دفاع جیمز ہیپی نے بتایا کہ ’انخلا کے دوران 15 ہزار برطانوی فوجیوں اور افغان شہریوں کو کابل سے برطانیہ لایا گیا ہے جبکہ اے آر اے پی سکیم کے تحت تسلیم ہونے والے دیگر سینکڑوں افغانوں کو کہا گیا ہے کہ وہ دیگر ذرائع کے تحت برطانیہ آسکتے ہیں۔‘
برطانوی حکومت نے کہا ہے کہ اے آر اے پی سکیم کے تحت لائے گئے افغانوں کے علاوہ بیس ہزار افغانوں کو برطانیہ میں پناہ لینے کی اجازت دی جائے گی۔
برطانوی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ’صورت حال واضح ہونے میں کچھ عرصہ لگے گا کہ کن افراد کو افغانستان سے نکالنے کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سکیورٹی کی صورت حال مسلسل تبدیل ہو رہی ہے اور خطے میں ہماری شراکت داریاں بن رہی ہیں، لیکن ہمیں مکمل یقین ہے کہ ہم ان کی مدد کر سکیں گے جنہیں مدد کی ضرورت ہے۔‘