’میں 25 ستمبر 1981 کی وہ دوپہر کبھی نہیں بھلا سکوں گا۔ میں گلبرگ میں اپنے دوست کے گھر بیٹھا گپ شپ میں مصروف تھا۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی۔ بتایا گیا کہ میرے والد کی گاڑی پر ماڈل ٹاؤن موڑ کے قریب حملہ ہوا ہے اور وہ شدید زخمی ہیں۔‘
’میں شدید پریشانی کے عالم میں گھر پہنچا۔ دیکھا کہ والد صاحب کے سارے دوست احباب جمع ہیں۔ ایک کمرے میں میرے تایا چودھری منظور الٰہی خاموش بیٹھے تھے۔میں نے والد صاحب کی خیریت دریافت کی تو ان کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ میں سمجھ گیا کہ میرے والد اب دنیا میں نہیں رہے۔‘
مزید پڑھیں
-
کیا گجرات کے چوہدری ’ساز باز‘ کی سیاست کرتے ہیں؟Node ID: 520611
ملک کے معروف سیاست دان اور سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کا مندرجہ بالا بیان ان کی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’سچ تو یہ ہے‘ سے لیا گیا ہے جس میں وہ ٹھیک 40 سال قبل آج ہی کے دن اپنے والد چوہدری ظہور الٰہی کے قتل کا احوال بیان کرتے ہیں۔
مرحوم اس روز اپنے دوست کے گھر سے ماڈل ٹاؤن کی طرف روانہ ہوئے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین اور ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے پراسیکیوٹر ایم اے رحمان ایڈووکیٹ بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وہ مولوی مشتاق کو ڈراپ کرنے ان کے گھر جا رہے تھے۔ظہور الہی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے تھے۔
ماڈل ٹاؤن موڑ کے قریب ایک کار نے ان کی گاڑی کا پیچھا کیا اور سامنے آکر گاڑی روک دی۔ کار سواروں نے سٹین گنوں سے اندھا دھند فائرنگ کی۔کار کے اندر دو دستی بم پھینکے جن میں سے ایک ظہور الٰہی کے ڈرائیور نسیم نے اٹھا کر باہر پھینک دیا جبکہ دوسرے کے پھٹنے سے وہ مرگیا۔چودھری ظہور الٰہی کے سینے میں گولی لگی۔
مولوی مشتاق حسین کو معمولی چوٹیں آئیں جبکہ ایم اے رحمان بالکل محفوظ رہے۔
شدید زخمی چودھری ظہور الٰہی کو کرسچیئن ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہو سکے۔ان کے بھائی چوہدری منظور الٰہی لاش کا پوسٹ مارٹم کروانے کے حق میں نہ تھے لیکن بارک اللہ ایڈووکیٹ اور جسٹس کرم اللہ چوہان کے اصرار پر راضی ہوگئے۔
چوہدری ظہور الٰہی ملک کے صف اول کے سیاسی رہنما اور ضیاء الحق کی کابینہ میں وزیر محنت و افرادی قوت رہ چکے تھے ۔ان کے قتل سے ملک میں سوگواری اور چہ مگوئیوں کی لہر پیدا ہو گئی۔
![](/sites/default/files/pictures/September/37246/2021/pic_5.jpg)
چوہدری شجاعت حسین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ حادثے سے تین روز قبل میرے والد نے راجہ ظفر الحق کو بتایا تھا کہ مجھے اپنے ذرائع سے خبر ملی ہے کہ الذوالفقار نے مجھے قتل کرنے کی سازش تیار کی ہے۔
اس واقعے کی شام سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے فرزند میر مرتضیٰ بھٹو نے دہلی میں بی بی سی کے نمائندے مارک ٹیلی کو ٹیلی فون کر کے اس قتل کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ان کے بیان کے مطابق ڈاکٹر مصدق اور اقبال نامی شخص نے یہ جان لیوا حملہ کیا تھا۔
پاکستان ایئر فورس کے سابق سربراہ اور اپنے وقت کے نامور سیاسی رہنما اصغر خان اپنی کتاب ’مائی پولیٹیکل سٹرگل‘ میں مرتضیٰ بھٹو کے دعوے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’اس طرح کی تنظیموں میں یہ معمول کی بات ہے کہ وہ ان کاروائیوں کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال دیں جو انہوں نے سرانجام ہی نہیں دی ہوتیں۔البتہ اس کام میں ملوث افراد کا نام ظاہر کرنا ایک غیر معمولی بات ہے۔‘
پولیس کی تفتیش میں سامنے آیا کہ واردات میں استعمال ہونے والی دونوں گاڑیاں چوری شدہ تھیں۔بالآخر پولیس نے عبدالرزاق جھرنا نامی نوجوان کو اس قتل کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ اس نے الذوالفقار سے اپنی وابستگی اور کابل میں ٹریننگ لینے کا اعتراف بھی کیا۔
چوہدری شجاعت حسین اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ’ان کی والدہ نے انہیں پتا لگانے کا کہا کہ پولیس نے واقعی اصل قاتل گرفتار کیا ہے یا خانہ پری کے لیے کسی بے گناہ کو پکڑ لیا ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/September/37246/2021/murtaza_bhutto.jpg)
والدہ کے حکم پر وہ اپنے ساتھیوں سمیت اسے ملنے تھانے چلے گئے۔ گفتگو میں اس سے پوچھا کہ اگر اس نے قتل نہیں کیا تو بتا دے تاکہ اسے رہا کروایا جائے۔
چودھری شجاعت حسین کے بقول نوجوان نے اعتماد سے جواب دیا کہ ’میں نے اپنا کام کر دیا ہے۔مجھے پھانسی نہیں ہوگی ۔میرے لوگ مجھے رہا کروا لیں گے۔‘
کچھ عرصے بعد اس کی سزائے موت پر عمل درآمد بھی ہو گیا جبکہ اس کا دوسرا ساتھی لالہ اسد پٹھان کراچی میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہو گیا۔
ماضی میں الذوالفقار سے منسلک رہنے اور ضیاءالحق پر قاتلانہ حملے کی مبینہ سازش کے الزام میں آٹھ برس جیل کاٹنے والے آصف بٹ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ چوہدری ظہور الٰہی کے قتل سے پندرہ بیس دن قبل پولیس نے جیل سے ان کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کروائی تھی۔
انہوں نے اپنی کتاب ’کئی سولیاں سرراہ تھیں‘ میں اس کی مزید تفصیل بیان کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ میں تفتیش کاروں کو الذوالفقار کی طاقت سے دہشت زدہ کرنے کے لیے بے سروپا کہانیاں گھڑ کر سناتا تھا۔ چوہدری ظہور الٰہی کے بارے میں مجھے کچھ علم نہ تھا لیکن میں نے ان کا نام بھی لے لیا کہ الذوالفقار انھیں ختم کرنا چاہتی ہے۔
وہ ظہور الٰہی سے ہونے والی گفتگو کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے میری اس اطلاع کے بارے میں کچھ سوالات کیے جو ان کے خلاف ممکنہ انتہائی اقدام سے متعلق تھی۔
میں نے اس کی تصدیق کی تو کہنے لگے کہ ’خیر ہے جو رات قبر میں آنی ہے وہ باہر نہیں گزار سکتا ۔تمہارے بارے میں کیا کہوں ۔دعا ہی کر سکتا ہوں کہ تمہیں اس مصیبت سے نجات ملے۔‘
آصف بٹ چوہدری ظہور الہٰی کی گاڑی پر حملے کا مقصد مولوی مشتاق کی جان لینا بتاتے ہیں۔ان کے مطابق اس کام کے لیے تین افراد کا گروپ تشکیل دیا گیا تھا جن کا سربراہ لالہ اسد پٹھان تھا۔
اس کے علاوہ رحمت اللہ انجم اور ملک جاوید اس میں شامل تھے ۔عبدالرزاق جھرنا کابل سے اس گروپ میں شامل نہ تھا بلکہ اس کا الگ گروپ تھا اور الگ ٹاسک بھی۔
لالہ اسد نے 25 ستمبر کو مولوی مشتاق کا حساب بےباک کرنے کا فیصلہ کیا۔عبدالرزاق جھرنا لالہ اسد کی خواہش پر ان کے ساتھ ہو لیا۔
آصف بٹ کہتے ہیں کہ ’ان چاروں میں سے کوئی بھی مولوی مشتاق کی شکل سے واقف تھا اور نہ ہی چوہدری ظہور الٰہی کو پہچانتا تھا۔لالہ اسد پٹھان نے کلاشنکوف کے فائر کھول دیے جس سے چوہدری ظہور الٰہی اور ان کا ڈرائیور نسیم راہی ملک عدم ہوئے۔
چودھری ظہور الٰہی اپنے دور کے نامور سیاسی رہنما تھے جنہوں نے ایک پولیس کانسٹیبل سے قومی سطح کے رہنما تک کا سفر بڑی کامیابی سے طے کیا۔ایک صدی قبل گجرات کے علاقے نت میں جنم لینے والے چودھری ظہور الہٰی جوڑ توڑ اور دھڑے بندی کی سیاست کے بادشاہ مانے جاتے تھے۔
قیام پاکستان سے قبل پولیس کی نوکری سے فراغت حاصل کر کے اپنے بھائی چوہدری منظور الٰہی کے ساتھ مل کر کاروبار کا آغاز کیا ۔تقسیم ہند کے بعد میلا رام مل کی الاٹمنٹ نے ان کی معاشی اور سماجی حیثیت دو چند کر دی جس کے بعد ان کی اگلی منزل ضلع گجرات کی سیاست میں نمایاں ہونا تھا۔
![](/sites/default/files/pictures/September/37246/2021/pervaiz_ellahi_afp_4.jpg)
اس دور کا گجرات نوابزادہ خاندان کی زبردست سیاسی اور معاشی قوت کے زیر اثر تھا ۔نواب سر فضل علی (نوابزادہ غضنفر گل کے دادا) تقسیم سے قبل اسمبلی کے ممبر تھے۔
ان کی سیاسی وراثت کو بیٹے نوابزادہ اصغر علی نے آگے بڑھایا ۔ان کا تعلق گجر برادری سے تھا ۔ان کے مخالف جاٹ قبیلے کی سرکردہ سیاسی شخصیت بہاول بخش کے بیٹے محمد احسن علیگ (اعتزاز احسن کے والد) تھے۔
دھڑے بندی اور برادری کی سیاست کے زیر اثر چوہدری ظہور الٰہی نے دونوں گروپوں کے افراد کے ساتھ مل کر اپنا الگ دھڑا تشکیل دیا۔
نوابزادہ خاندان سے ان کا پہلا ٹکراؤ کوآپریٹیو بینک کے انتخابات میں ہوا ۔انہوں نے برسوں سے سینٹرل بینک کے سربراہ چلے آنے والے اصغر علی کے ناقابل تسخیر ہونے کا زعم توڑ دیا۔
یہ سب احسن علیگ اور چوہدری فضل الٰہی (بعد ازاں صدر پاکستان) کے ساتھ ان کے سیاسی مراسم اور تعاون کا نتیجہ تھا۔ ان دونوں نے سنہ 1956 کے انتخابات میں نواب زادہ برادران کے مقابلے میں فتح سمیٹی۔
اعلٰی تعلیم یافتہ اور نستعلیق شخصیت کے مالک احسن علیگ جلد دھڑے بندی کی سیاست سے بیزار ہوکر لاہور جا بسے۔ اب چوہدری ظہور الٰہی گجرات کے جاٹوں کے بلا شرکت غیرے لیڈر بن گئے۔
جب ریپبلکن پارٹی بنی تو انہوں نے فضل الٰہی سمیت اپنے دھڑے کی تقویت اور مخالفین کی زد میں اس میں شمولیت اختیار کرلی ۔
معروف محقق سید عقیل عباس جعفری اپنی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘میں لکھتے ہیں کہ ان دونوں شخصیات نے ریپبلکن پارٹی میں شمولیت کے بعد گجرات مسلم لیگ کے دفتر پر قبضہ کرکے اس پر ریپبلکن پارٹی کا بورڈ آویزاں کر دیا۔
![](/sites/default/files/pictures/September/37246/2021/nawab_of_kalabagh_flickr.jpg)