پاکستان کی سیاست کا ذکر گجرات کے چوہدریوں کے بغیر نامکمل رہتا ہے یہ کہنا شاید کسی حد تک درست ہے، کیونکہ بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں پاکستانی سیاست میں جتنے بھونچال آئے ہیں ان میں کسی نہ کسی طرح گجرات کے چوہدری نمایاں رہے ہیں۔
پاکستان میں جاری اس وقت تحریک انصاف کی حکومت بھی کسی حد تک انہی کی مرہون منت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عمران خان کی جماعت اقتدار کے لیے 2018 کے انتخابات میں سادہ اکثریت حاصل نہیں کر سکی تھی تو لامحالہ مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کا ساتھ دینے سے ہی عمران خان وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان ہیں۔
پاکستان میں 1999 کی فوجی بغاوت کے بعد وہ وقت بھی آیا جب سابق فوجی آمر پرویز مشرف کی سرپرستی میں چوہدریوں نے مسلم لیگ ق کی بنیاد رکھی جس نے پانچ سال تک وفاق اور پنجاب میں حکومت بھی کی۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ درپردہ قوتوں کی بے پایاں حمایت کے باجود چوہدری صف اول کی سیاسی طاقت کھڑی نہیں کر سکے۔
مزید پڑھیں
-
پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکمNode ID: 448711
-
نواز شریف اور چوہدری شجاعت کا ٹیلیفونک رابطہNode ID: 520186
-
’وزیراعظم کو ٹھنڈی بوتلیں پیش نہ کرنے پر کمشنر سے وضاحت طلب‘Node ID: 520381
پرویز مشرف کے دور میں بھلے چیف ایگزیکٹو کے اختیار ان کے پاس تھے اور وزیر اعظم کا عہدہ اختیارات کے حوالے سے صدر سے کم تھا پھر بھی چوہدری شجاعت کو انتہائی مختصر وقت کے لیے وزیر اعظم بنایا گیا اور ان کی جگہ شوکت عزیز نے لے لی۔
2008 کے انتخابات میں ق لیگ کی واضع شکست کے بعد چوہدری برادران مرکز میں ن لیگ کے اتحاد چھوڑنے کے بعد پیپلز پارٹی کی ساتھ اتحاد میں دوبارہ حکومت میں آ گئے۔ جتنی دیر بھی یہ حکومت رہی ایک طرح کی خبر ضرور سننے کو ملتی رہی کہ پیپلزپارٹی اور ق لیگ کے اتحاد میں دراڑیں، یا ’صدر زرداری کا چوہدری شجاعت کو فون ق لیگ نے حکومت سے نکلنے کا فیصلہ موخر کر دیا۔‘
2018 میں تحریک انصاف کی حکومت کے ساتھ چوہدریوں کی شراکت داری کے دوران بھی پچھلے اڑھائی سالوں سے اس سے ملتی جلتی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ اس مضمون کے لکھے جانے کے وقت اتفاق سے 25 نومبر کو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی چوہدری برادران کے ساتھ ان کے گھر میں ملاقات ہوئی ہے۔ اور ٹی وی چینل یہ سرخی جما رہے ہیں کہ ’وزیر اعظم سے ملاقات میں بڑا بریک تھرو، ملاقات میں برف پگھل گئی۔ اتحادیوں کے وزیر اعظم سے گلے شکوے دور وغیرہ وغیرہ۔‘
وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں جن گلوں شکووں کا ذکر ہو رہا اس کی ایک جھلک مونس الہی کے پانچ نومبر کے ٹویٹ سے عیاں ہے۔ انہوں نے لکھا کہ ’ہمارا پی ٹی آئی سے اتحاد ووٹ کی حد تک ہے۔ ہمارے معاہدے میں عمران خان کے کھانے کھانا شامل نہیں۔‘
یہ ٹویٹ انہوں نے ان خبروں کے بعد لکھی جن میں ق لیگ کی طرف سے وزیر اعظم کی کھانے کی دعوت میں شرکت سے انکار سامنے آیا تھا. اسی طرح پارٹی کے ایک اور راہنما طارق بشیر چیمہ کے ٹی وی چینلز برملا گلے شکوے بھی دیکھنے کو نظر آئے جس میں انہوں نے کہا کہ ’وزیر اعظم تو ملنا تک گوارہ نہیں کرتے۔‘

ایسے میں یہ سوالات بہر حال اٹھتے ہے کہ چوہدریوں کی سیاست اصل میں ہے کیا؟ نواز شریف سے بھی راستے جدا کیے، پرویز مشرف سے بھی دوری ہو گئی، پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی مدوجزر کا ماحول رہا اور اب پی ٹی آئی کے ساتھ بھی ساس بہو والا معاملہ ہے۔
چوہدریوں کی سیاست
پاکستان میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس سمجھتے ہیں کہ چوہدریوں کی سیاست دھڑے کی سیاست ہے۔ یہ کسی پارٹی کی سیاست نہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتےہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک دھڑا ہے اور دھڑے کی سیاست کرتا ہے۔ ایسے دھڑے کی کوئی بھی واضح پالیسی نہیں ہوتی۔ وہ صرف حالات کے مطابق چلتا ہے۔ جب مرکز میں کوئی سیاسی پارٹی واضع اکثریت حاصل نہیں کر پاتی تو ایسے دھڑوں کا جمعہ بازار لگ جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’جب کوئی پارٹی سادہ اکثریت کے ساتھ سامنے آجاتی ہے تو ایسے دھڑے بے وقعت ہو جاتے ہیں۔ سابقہ حکومت میں مسلم لیگ ن نے سادہ اکثریت حاصل کی تھی تو ق لیگ کہیں بھی نہیں تھی۔ اگر عمران خان لے لیتے تو بھی یہی صورت حال تھی اور آئندہ بھی کوئی لے گا تو یہ غیر اہم ہو جائیں گے۔ اگر آپ صرف گجرات کے چوہدریوں کی بات کرتے ہیں تو یہ تو ہمیشہ بحق اسٹیبلشمنٹ رہے ہیں۔ اور دو دفعہ تو سرعام اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اپنایا ہے ایک ضیاء الحق دور اور دوسرا پرویز مشرف دور۔ تو ان کی سیاست کا دائرہ ذاتی مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ ‘
