Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہندو اور مسلمان خواتین کا ایک دوسرے کے شوہروں کو بچانے کے لیے گردے کا عطیہ

سرجری کا فیصلہ جنوری میں کیا گیا تھا لیکن اسے انجام رواں ماہ دیا گیا۔ فائل فوٹو: ان سپلیش
نو ماہ قبل سُشما اونیال اور سلطانہ علی ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھیں اور انڈین ریاست اترکھنڈ کے دارالحکومت دہرہ دون میں اپنے ہندو اور مسلمان گھرانوں میں زندگی بسر کر رہی تھیں۔
دونوں خواتین میں کچھ زیادہ مشترک بھی نہیں تھا سوائے اس کے کہ انہیں اپنے اپنے شوہر، 51 سالہ ویکاس اونیال اور 52 سالہ اشرف علی کے لیے گردوں کے ڈونر کی تلاش تھی۔ دونوں افراد 2019 سے گردہ فیل ہونے کی تکلیف سے نمٹ رہے تھے۔
دونوں خاندانوں نے ڈونر کی تلاش میں الگ الگ درخواست جمع کروائی تھی لیکن ان کو میچ نہیں ملا۔
طبی طور پر عدم مطابقت کی وجہ سے سُشما اور سلطانہ اپنے شوہروں کو گردہ نہیں دے سکتی تھیں۔
تاہم رواں سال جنوری میں انہیں ڈاکٹر شہباز احمد کی کال آئی، جو کہ گردوں کے امراض کے ڈاکٹر ہیں اور ویکاس اور اشرف کے علاج سے متعلق معاملات دیکھ رہے تھے۔
عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے دہرہ دون کے ہمالین ہسپتال کے ڈاکٹر شہباز احمد کا کہنا تھا کہ ’میں ان کی فائلیں دیکھ رہا تھا کہ جب مجھے احساس ہوا سلطانہ کا بلڈ گروپ، اے، ویکاس کے بلڈ گروپ کے ساتھ میچ کرتا ہے جبکہ سُشما کا اشرف کے ساتھ کرنا ہے۔ میں نے فوراً دونوں خاندانوں سے رابطہ کیا۔‘
ڈاکٹر شہباز احمد نے تجویز کیا کہ سُشما اور سلطانہ ایک دوسرے کے شوہروں کو گردہ عطیہ کر دیں لیکن اس کے لیے ایک بات کا حل اہم تھا۔ وہ یہ کہ دونوں خاندان گردے کی پیوندکاری کے لیے اپنے مذہبی اختلافات ایک طرف رکھ سکیں گے؟
واضح رہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتی جنتا پارٹی کے دور اقتدار میں انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ مذہبی کشیدگی کی تاریخ چلتی آ رہی ہے۔ مسلمان انڈیا میں سب سے بڑا اقلیتی گروپ ہیں، جن کی تعداد ملک کی 1.36 ارب کی آبادی میں سے 20 کروڑ ہے۔

ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس سرجری سے دونوں خاندانوں کے درمیان ایک رشتہ قائم ہوگیا ہے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

ڈاکٹر شہباز احمد کو اندازہ تھا کہ پیوندکاری کی سرجری میں مذہب کا عنصر ضرور بیچ میں آئے گا لیکن پھر بھی انہوں نے یہ سوال کیا۔
’میں نے جنوری میں دونوں خاندانوں کو ایک دوسرے سے ملوایا اور انہوں نے سرجری کے لیے رضامندی ظاہر کی۔ کچھ ٹیسٹ کروانے کے بعد مجھے پتہ لگا کہ مذکورہ خواتین کے گردے ان دونوں افراد کو عطیہ کیے جا سکتے ہیں۔۔۔‘
کچھ ماہ بعد گردوں کی پیوندکاری کی تاریخ تو آئی لیکن کورونا وائرس کی وبا کے باعث یہ عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔
تاہم 4 ستمبر کو یہ سرجری بالآخر انجام دے دی گئی۔ اس کے مکمل ہونے میں 10 گھنٹے لگے۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس سرجری سے دونوں خاندانوں کے درمیان ایک رشتہ قائم ہو گیا ہے اور ایسا کرنا قانونی طور پر دوسروں کے لیے بھی ممکن ہے۔

انڈیا میں قانونی طور پر ممکن ہے کہ ایک اجنبی کسی دوسرے شخص کو گردہ عطیہ کرے۔ فائل فوٹو: ان سپلیش

انڈیا کے انسانی اعضا کی پیوندکاری ایکٹ 2011 کے تحت اعضا کے تبادلے کی اس صورت میں اجازت ہوتی ہے جب قریبی رشتہ دار عضو حاصل کرنے والے کے ساتھ طبی طور پر ناموافق ہو۔
اس صورتحال میں قانون کی طرف سے اجازت ہوتی ہے کہ خون کے رشتوں کے علاوہ بھی لوگ خود سے طبی موافقت رکھنے والے افراد کو اعضا عطیہ کر سکتے ہیں۔
انڈیا میں 20 لاکھ افراد گردے کی پیوندکاری کے منتظر ہیں لیکن ملک میں یہ طلب پوری نہیں ہو رہی۔ قانونی طریقے سے کیے جانے والے عطیوں سے صرف تین سے پانچ فیصد ضرورت پوری ہورہی ہے۔
ٹرانسپلانٹ کے عمل میں ایک شخص پر آٹھ ہزار ڈالر تک کا خرچہ آتا ہے اور اس کو مکمل کرنے میں 10 سے 15 دن لگتے ہیں۔

شیئر: