Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سیاسی شخصیات کو پرکھنے کا معیار ان کی بصیرت و قوت فیصلہ یا سٹائل؟

سوشل میڈیا پر پارٹی کارکن اپنے قائدین کی تصاویر مختلف تبصروں کے ساتھ پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
’سٹائل کوئین مریم نواز‘۔۔۔۔ مسلم لیگ ن کی رہنما حنا پرویز بٹ نے جب ن لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی تصویر اس کیپشن کے ساتھ شیئر کی تو شاید انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی یہ پوسٹ سیاسی لیڈرز کو پرکھنے کے معیار پر سوال کھڑا کر دے گی۔  
ویسے تو حنا پرویز بٹ گاہے گاہے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مریم نواز کی تصاویر شیئر کرتی رہتی ہیں لیکن اس بار جب انہوں نے کالے رنگ کے کپڑوں میں کرسی پر براجمان ن لیگی رہنما کی تصاویر پوسٹ کر کے انہیں ’سٹائل کوئین‘ کا لقب دیا تو سینیئر صحافی عامر متین نے اس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے نشاندہی کی کہ وہ ’روزانہ کی بنیاد پر ماڈلنگ کے انداز میں مریم نواز کی تصاویر ایسے کیپشنز کے ساتھ شیئر کر کے ان کی بہتر تشہیر نہیں کر رہیں۔‘   
انہوں نے ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ ’جیسا کہ امید کی جا رہی ہے کہ وہ مستقبل کی وزیراعظم ہوں گی، آپ کو ان کے کپڑوں اور جوتوں کے بجائے ان کی سیاسی ذہانت کو پروموٹ کرنا چاہیے۔‘
اس تبصرے پر حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے حامی بھی میدان میں کود پڑے اور حنا پرویز بٹ کو خوب لتاڑا کہ وہ اپنی سیاسی لیڈر کو ’آبجیکٹیفائے‘ کر رہی ہیں۔ بحث نے زور پکڑا تو ن لیگ کے حامیوں نے بھی دفاعی مورچہ سنبھالا اور پی ٹی آئی کو یاددہانی کرائی کہ وہ بھی اپنے لیڈر عمران خان کو ’ہینڈسم‘ کہہ کر ان کی سیاسی بصیرت کے بجائے ان کی وجیہہ شخصیت کے معترف رہے ہیں۔  
تبصروں کا بازار گرم ہوا تو ایک سوال نے جنم لیا کہ کیا سیاسی شخصیات کو ان کی سیاسی بصیرت، سیاسی اپروچ، قوت فیصلہ کی کسوٹی پر پرکھنا چاہیے یا ان کی ظاہری وضع قطع کی بنیاد پر؟  
یا پھر یہ تمام لوازمات ہی ایک مکمل سیاسی شخصیت کی عوام میں مقبولیت کے لیے ضروری ہیں؟  
پاکستان کی سیاست کی تاریخ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہاں سیاسی شخصیات کے بیانات خبروں کی زینت بنے وہیں ان کا منفرد انداز بھی عوام میں مقبول رہا گویا سیاست اور سٹائل کا ہر دور میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔  
سوٹ اور ٹائی کے ساتھ چمڑے کے جوتے اور ہاتھ میں سگار محمد علی جناح کی شخصیت کو پُرکشش بنا دیتا تھا۔ جب برصغیر کی تقسیم ہوئی، نیا ملک بنا تو یہ انداز بھی بدلا اور پھر انہیں نفیس شیروانی زیب تن کیے دیکھا گیا اور سر پر قراقلی ٹوپی ان کی پہچان بن گئی جسے جناح کیپ کہا جاتا ہے۔  

2011 میں دورہ انڈیا کے دوران سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کی ’سٹائلش لُک‘ انڈین میڈیا کی خبروں کی زینت بنی۔ فوٹو: روئٹرز

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فیشن کے ٹرینڈز بھی بدلتے رہے ہیں جس کی جھلک سیاسی رہنماؤں کے پہناوے میں بھی نظر آتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے روایتی شلوار قمیض کا انتخاب کیا جس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ وہ خود کو عام آدمی کے لیڈر کے طور پر دکھانا چاہتے تھے۔ بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے جب وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو سر پر مخصوص انداز سے دوپٹہ پہننا ان کا ٹریڈ مارک بن گیا، مختلف رنگوں کی جیکٹیں اور آنکھوں پر موٹے فریم کی عینک بھی توجہ کا مرکز بنی رہی اور ان کے مخالفین کی آنکھوں میں کھٹکتی بھی رہی۔   
پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے لباس، جیولری اور ہینڈ بیگز کے انتخاب نے انہیں ایک نمایاں پہچان دی، یہاں تک کہ ان کے 2011 میں دورہ انڈیا کے دوران ان کی ’سٹائلش لُک‘ انڈین میڈیا کی خبروں کی زینت بنی۔  
المختصر یہ کہ بلا صنفی تفریق سیاسی رہنماوں کی وضع قطع کسی نہ کسی حد تک ’ٹالک آف دا ٹاؤن‘ رہی ہے۔   
لیکن یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ اول الذکر تمام شخصیات نے سیاسی محاز پر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا اور پاکستانی سیاست پر اپنے ان مٹ نقش چھوڑے۔  
موجودہ دور کی بات کریں تو جب سے سوشل میڈیا تک رسائی عام ہوئی ہے یہ دیکھا گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کے کارکنان یا حامی صارفین اپنے پارٹی لیڈر کے دیگر اوصاف کے ساتھ ساتھ ان کی ظاہری شخصیت کی مداح سرائی میں مصروف نظر آتے ہیں۔   
تو کیا ایک سیاسی لیڈر کے لیے سٹائل آئیکون بننا بھی عوام میں اس کی پذیرائی کے لیے اتنا ضروری ہے یا یہ صرف اضافی خوبی ہو سکتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات جاننے کے لیے اردو نیوز نے جب سینیئر تجزیہ کار ڈاکٹر مہدی حسن سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’لباس اور انداز گفتگو شخصیت کا حصہ ہے اور سیاسی شخصیات کی قائدانہ صلاحیتوں میں یہ بھی اہمیت رکھتا ہے لیکن سب سے اہم سیاسی نظریات ہوتے ہیں۔‘  

انجیلا مرکل نے یہ ثابت کیا کہ سیاسی شخصیت کے سٹائل سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ کیا سیاسی نظریات رکھتا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے ہمارے یہاں نظریاتی سیاست ختم ہو گئی ہے اس لیے ان چیزوں کو ڈسکس کیا جاتا ہے جو ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔‘  
ڈاکٹر مہدی حسن کے مطابق ماضی میں قائداعظم محمد علی جناح اور ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے جن کی قائدانہ صلاحیتوں نے عوام کو متاثر کیا اور ان کا سٹائل بھی مقبول ہوا۔‘  
تاہم وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا میں بہت سی ایسی سیاسی شخصیات بھی رہی ہیں جو نہ سٹائلش تھیں نہ ان کے انداز گفتگو میں ایسی کوئی منفرد بات تھی لیکن جو بات وہ کرتی تھیں وہ اہم ہوتی تھی اس لیے باقی سب کچھ غیر اہم ہوجاتا تھا۔‘  
وکیل بے نظیر جتوئی سمجھتی ہیں کہ مریم نواز اپنی تصاویر خود پوسٹ نہیں کرتیں اگر ان کی پارٹی کی کارکن یا کوئی فین ان کی تصاویر شیئر کرتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ 
’حنا پرویز بٹ کیونکہ ایک زمانے میں ڈیزائنر رہ چکی ہیں تو ممکن ہے وہ مریم نواز کو ایک سٹائل آئیکون کے طور پر بھی دیکھتی ہوں لیکن ضروری نہیں کہ سب انہیں اسی پہلو سے پرکھیں جیسے کہ میں اگر اپنی بات کروں تو میں مریم نواز کی سیاست کو دیکھوں گی۔‘ 
بے نظیر جتوئی کے بقول ’ظاہری وضع قطع پوری شخصیت کا احاطہ نہیں کرتی بلکہ یہ ایک چھوٹا حصہ ہے اور ایک حد تک یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک سیاسی لیڈر کس طرح خود کو پیش کرتا ہے۔‘ 
اس سوال کے جواب میں کہ ایک خاتون سیاسی رہنما کی سیاست سے زیادہ اس کا لباس، اس کا سٹائل، اس کی جیولری یا اس کے ہینڈ بیگز ہی کیوں موضوع بحث بن جاتے ہیں، بے نظیر نے کہا کہ ’یہ رجحان ہماری سوسائٹی میں ہی زیادہ ہے ورنہ سابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہوں نے یہ ثابت کیا کہ سیاسی شخصیت کے سٹائل سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ کیا سیاسی نظریات رکھتا ہے اور کیا بات کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے ان کی سیاست پر بات کی۔‘ 
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت عورت کو صنف سے بالاتر ہو کر نہیں دیکھتی اس لیے وہ اس بحث میں الجھ جاتے ہیں کہ کس نے کیا پہنا یا وہ کیسا دکھ رہا تھا۔‘

شیئر: